اسلام آباد میں سہ فریقی سمٹ، مزید تعاون کا عزم
17 فروری 2012جمعے کے روز اسلام آباد میں سہ فریقی سر براہی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ تینوں ممالک کے وزرائے داخلہ دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے انسداد اور سرحدی انتظامات سے متعلق فریم ورک تیار کریں گے اور یہ مسودہ ان ملکوں کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
اعلامیے میں افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت کی گئی ہے اور تینوں ممالک کے درمیان تعاون کے لیے مختلف شعبہ جات کی نشاندھی بھی کی گئی ہے۔ تینوں صدور نے اپنے اپنے ممالک کے عوام کی خواہشات کے مطابق امن، سلامتی، استحکام اور اقتصادی خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے باہمی تعاون کو بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
تینوں صدور نے اس سے قبل ہونے والے دو سہ فریقی اجلاسوں میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد پر بھی زور دیا۔
اعلامیے کے مطابق تینوں ممالک تاریخ، جغرافیے، ثقافت اور مذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔ تینوں ممالک کے درمیان جامع تعاون اور عملی اقدامات کے لیے طریقہ کار طے کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق علاقائی خود مختاری، آزادی، اتحاد اور سالمیت کا احترام کیا جائے۔
اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا کہ کسی بیرونی طاقت کو خطے میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ خطے کے مسائل کا بڑا سبب بیرونی مداخلت ہے۔ علاقے کے ممالک میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے اور ان کے مسائل مشترک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے کے ممالک متحد ہو کر بیرونی طاقتوں کے مسلط کیے گئے مسائل کا حل نکال سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’کچھ ممالک ہیں، جو ہمارے خطے پر مسلط ہونے کے عزائم رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے تسلط کو قائم کرنے کے لیے ہمارے خطے کو ہدف بنا رکھا ہے‘۔احمدی نژاد کے مطابق تینوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔
پاکستانی صدر آصف علی زرداری نےکہا، ’پاکستان ایران سے گیس کی درآمد سے متعلق کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کرے گا‘۔ ایک سوال کے جواب میں صدر زرداری نے کہا کہ منشیات کا مسئلہ افغانستان پر روس کے قبضے کے دور سے ہے اور اس جنگ کے بعد دنیا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خطے کے ممالک خصوصاﹰ ایران، پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور کسی کے دباؤ میں آ کر ان ممالک کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے صدر زرداری نے کہا کہ اس حوالے سے اگر کسی کے تحفظات ہیں تو پاکستان ان کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
افغانستان سے متعلق ایک سوال پر صدر زرداری نے کہا کہ اس اجلاس سے ایک دوسرے کے مسائل اور نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا، ’دہشت گردی ہماری مشترکہ سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ میں اپنے بھائیوں کو دوبارہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم افغانستان میں امن اور مصالحت کے لیے اپنا بھرپور تعاون کرتے رہیں گے‘۔
افغان صدر حامد کرزئی نے ایران اور پاکستان سے مذاکرت کو مثبت قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی انتہا پسندی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ ’’جہاں تک مسائل کو سمجھنے کا تعلق ہے، وہ کام ہو چکا۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ ان مسائل کے حل کے لیے ایک قابل عمل اور قابل نفاذ پالیسی تشکیل دی جائے جس پر عمل کیا جا سکے۔‘‘
اس سے قبل جمعے کے روز ایوان صدر میں ہونے والی بات چیت میں پاکستانی صدر آصف علی زرداری، ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور افغان صدر حامد کرزئی شریک ہوئے۔ تینوں ممالک کے سربراہان کی آئندہ کانفرنس کابل میں ہو گی۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں