افغانستان، انسانی حقوق کی ’تنزلی‘ پر اقوام متحدہ کے خدشات
17 ستمبر 2013ناوی پلے کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ سن 2001 میں طالبان کی رجعت پسند حکومت کے خاتمے کے وقت افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ عالمی اداروں نے اس میں بہتری کے لیے بہت زیادہ کام کیا لیکن یہ ملک ایک مرتبہ پھر شدت پسندی کے زیر اثر آ سکتا ہے۔
اپنے دورہ کابل کے دوران ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ یہاں انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت اب تنزلی کا شکار ہے، خصوصاً خواتین اس حوالے سے زیادہ مسائل کا شکار نظر آرہی ہیں ۔ ایک دہائی سے زیادہ غیر ملکی فوجی دستوں کی موجودگی اور کروڑوں ڈالر کی امدادی رقوم خرچ کرنے کے باوجود صورت حال میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔
اپنے اس پہلے دورہ افغانستان کے دوران نے ناوی پلے نے افغان حکام سے یہ یقین دہانی مانگی کہ وہ ملک میں گزشتہ بارہ سال کے دوران انسانی حقوق کے حوالے ہونے والے کام کی رفتار سست نہیں ہونے دیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل افغانستان شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ اس سال کے آخر میں 87 ہزار نیٹو فوجیوں کے انخلاء کے بعد صورت حال مزید کشیدہ ہونے کا امکان ہے۔
پلے نے افغان صدر کی توجہ افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق غیر جانبدار ادارے (AIHRC) کی مضبوطی کی طرف بھی مبذول کروائی۔ حال ہی میں افغان صدر کی جانب سے اس ادارے میں سیاسی بنیاد پر پانچ افراد کی ترقی پر انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔
ناوی پلے نے مزید کہا، ’’اب جب کہ ملک کے پارلیمانی انتخابات میں چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں، میں افغان صدر اور ان کی حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ افغانستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے گزشتہ بارہ سال کے دوران ہونے والی ترقی کو سیاسی مصلحت پسندی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے اضافی کوششیں کریں۔‘‘
پلے نے یہ بھی کہا کہ ملک میں رجعت پسند گروہ زور پکڑ رہے ہیں، لہذا سیاسی رہنماؤں کو مزید استقامت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔