افغانستان کے نئے صدر اور ان کو درپیش چیلنجز
21 ستمبر 2014انتخابی نتائج اور سیاسی مفاہمت کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ 55 سالہ اشرف غنی، جو ایک بے داغ ماضی کے حامل اصلاح پسند کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ملک کے آئندہ صدر ہوں گے۔
افغان عوام کو بالآخر ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ان کے نئے صدر کے بارے میں حتمی فیصلہ سُننے کو مل ہی گیا۔ چودہ چون کو حتمی مرحلے کے لیے ڈالے گئے تمام اسی لاکھ سے زائد ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور پھر جانچ پڑتال کے بعد بھی اشرف غنی ہی سرفہرست ثابت ہوچکے ہیں۔
تاہم اس جنگ زدہ ملک کے خونریز ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقتدار کے پر امن انتقال کے لیے محض انتخابات ہی کافی ثابت نہیں ہوسکے۔ اشرف غنی کے حریف امیدوار عبد اللہ عبد اللہ پہلے انتخابات کے ابتدائی نتائج پر سیخ پا ہوئے اور پھر ایک معاہدے کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر تو تیار ہوئے لیکن اس جانچ پڑتال کے عمل پر بھی وہ شاکی رہے۔ بالآخر صدر حامد کرزئی اور سابق جہادی رہنماوں کی طویل مشاورتی کوششوں کے بعد وہ شراکت اقتدار کے معاہدے پر تیار ہوگئے ہیں، جسے گرچہ شراکت اقتدار کا معاہدہ نہیں قرار دیا جارہا۔
دونوں صدارتی امیدواروں کے مابین یہ طے پایا ہے کہ اشرف غنی احمد زئی ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں گے جبکہ عبد اللہ عبد اللہ کے لیے چیف ایگزیکیٹیو کا عہدہ قائم کیا جائے گا، جس کے پاس خاطر خواہ اختیارات ہوں گے مگر وہ آئین کے مطابق صدر مملکت کے ماتحت کی حیثیت سے کام کرسکیں گے۔
افغانستان کے بہت سے دانشور عبد اللہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس توڑ جوڑ کے عمل سے قائم ہونے والی حکومت سے بہت زیادہ توقوعات وابستہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ تاہم کچھ کے خیال میں، عبد اللہ کے حامی جس طرح کے تخریبی بیانات جاری کر رہے تھے، اس صورتحال میں اس مسئلے کا ایک پر امن حل ملک اور عوام کے مفاد میں کسی غنیمت سے کم نہیں۔
افغانستان میں سب سے بڑے نجی خبر رساں ادارے پژواک میں مدیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھانے والے پاکستانی صحافی سید مدثر علی صورتحال کو کچھ یوں دیکھتے ہیں، "لوگوں میں اب تشویش بڑی حد تک کم ہوگئی ہے، اس بے یقینی نے معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے تھے مگر مجھے نہیں لگتا کہ شراکت اقتدار کے تحت دو مخالف گروپوں کی قائم کردہ یہ حکومت زیادہ عرصہ چل پائے گا"۔
آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے عوام نے انتخابات کے دونوں مراحل میں توقعات کے برخلاف بڑھ چڑھ کا حصہ لیا تھا تاہم بعد میں جب یہ عمل کئی ماہ تک بے نتیجہ رہا اور ملک کے کونے کونے سے بدامنی کے بڑھنے اور بے روزگاری کے واقعات سامنے آنے لگے تو عمومی طور پراچھی امید کے بجائے خوف اور پریشانی نے لے لی تھی۔
کابل میں کشمش کا شربت فروخت کرنے والے محمد صابر کو اشرف غنی اور عبداللہ کے مابین سمجھوتے کے بعد ایک مرتبہ پھر امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔ وہ کہتا ہے، " ہمیں بس امن چاہیے کہ یہ بے یقینی کی صورتحال ختم ہو اور نیا صدر ملک کی باگ ڈور سنبھال لے"۔
نئے افغان صدر کی حیثیت سے اشرف غنی کے سامنے اس جنگ زدہ اور غریب ملک کو خود انحصاری اور خوشحالی کی ڈگر پر ڈالنے کے لیے پہاڑ جیسے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔