افغان صدر اشرف غنی چین کے دورے پر
28 اکتوبر 2014اشرف غنی نے گزشتہ ماہ افغانستان کے صدر کا منصب سنبھالا تھا۔ انہوں نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے چین کو منتخب کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اُن کے منگل سے شروع ہونے والے اِس دورے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نئی افغان حکومت چین کو کتنی اہمیت دے رہی ہے اور وہ بیجنگ کے ساتھ قریبی اقتصادی روابط کی خواہاں ہے۔
چین کے چار روزہ دورے کا آغاز اشرف غنی نے صدر شی جِن پِنگ کے ساتھ ملاقات سے کیا۔ یہ ملاقات بیجنگ کےگریٹ ہال میں ہوئی۔ ملاقات کے دوران غنی نے چین کو طویل مدت سے لے کر مختصر عرصے کے لیے بھی افغانستان کا اسٹریٹیجیک پارٹنر قرار دیا۔ چینی صدر نے اشرف غنی کو چینی عوام کا دیرینہ دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ چین افغانستان تعاون کے نئے عہد کی شروعات کے لیے تیار ہیں۔ اشرف غنی کے ہمراہ افغان حکومت کا ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی چین گیا ہے۔ اِس وفد میں کاروباری حضرات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ افغان صدر اپنے ملک کی اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لیے چینی سرمایہ کاری میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے کابل اور بیجنگ کے حکومتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اشرف غنی کے دورے کے دوران دو طرفہ بات چیت کے ساتھ ساتھ کئی سمجھوتوں پر بھی دستخط کیے جائیں گے۔ افغان صدر چین کے ممکنہ سرمایہ کاروں سے بھی ملاقات کریں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ چین پہلے ہی افغانستان میں خام تیل اور تانبے کے حصول کے لیے کابل حکومت سے خصوصی رعایتیں حاصل کر چکا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں تانبے اور خام تیل کے ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کے ذخائر زیر زمین پوشیدہ ہیں۔ افغانستان میں تانبے کے ذخیرے کو لاطینی امریکی ملک پیرو کے بعد سب سے بڑا ذخیرہ قرار دیا جاتا ہے۔
چینی ادارے برائے عصری بین الاقوامی امور کے ریسرچر فُو شیاؤچیانگ نے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کو افغان صدر کے دورے کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان کے استحکام اور ترقی کے لیے دوسرے ذرائع کی تلاش موجودہ افغان حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔ شیاؤچیانگ نے مزید واضح کیا کہ چین ایک انتہائی باصلاحیت ہمسایہ ملک ہے اور افغان حکومت کی جانب سے صدر غنی کے دورے کے لیے پہلی ترجیح چین ہونا بھی اہم ہے۔ چینی تجزیہ کار کے خیال میں موجودہ افغان حکومت چین کے ساتھ گہرے معاشی تعلقات کی خواہشمند دکھائی دیتی ہے۔ دوسری جانب غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی سلامتی اور ترقی کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی موجود ہیں۔
رواں برس ستمبر میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اشرف غنی کا بظاہر ایک دورہ سعودی عرب کا تھا لیکن اِس میں بنیادی مقصد وہاں عمرہ کرنا اور الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے پر مکہ مکرمہ میں دعائے شُکر ادا کرنا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اشرف غنی احمد زئی اپنے ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے معدنی وسائل کا بھرپور استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ رواں برس افغانستان کی اقتصادی ترقی کی شرح گر کر ایک اعشاریہ پانچ فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ عالمی اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق بین الاقوامی فوج کے انخلاء کے بعد انتشار اور افراتفری میں اضافے کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو افغان معیشت کی حالت مزید خراب ہو جائے گی۔