امریکی جاسوسی کے پروگرام میں یورپی یونین ترجیحی ہدف، رپورٹ
11 اگست 2013ڈئیراشپیگل نے سابق امریکی خفیہ اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشاء کردہ ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے نگرانی کے خفیہ پروگرام میں یورپی یونین کو خصوصی طور پر اس فہرست میں نمایاں اہداف میں شامل کیا گیا تھا۔
اشپیگل کے مطابق رواں برس اپریل میں جاری کیے گئے ایک خفیہ امریکی دستاویز میں کہا گیا کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں خصوصی طور پر 28 رکنی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی ، بین الاقوامی تجارت اور اقتصادی استحکام کے حوالے سے معلومات کے حصول میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس دستاویز کے مطابق خفیہ معلومات کے حصول کے لیے اہم سے کم اہم کے لحاظ سے ترتیب دی گئی اہداف کی امریکی فہرست میں یورپی یونین کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا تھا۔ اس فہرست میں نئی ٹیکنالوجی اور انرجی سکیورٹی کو سب سے کم اہم قرار دیا گیا تھا۔
ملکوں کے لحاظ سے چین، روس، ایران، پاکستان اور شمالی کوریا امریکا کے نگرانی کے اس پروگرام میں سب سے اہم اہداف قرار دیے گئے تھے۔ اس دستاویز کے مطابق جرمنی، فرانس اور جاپان درمیانے درجے کے اہداف تھے۔
اس دستاویز کے منظرِعام پر آنے کے بعد این ایس اے کے اس سے قبل سامنے آنے والے دستاویزات میں کی جانے والی باتوں کو تقویت ملتی ہے۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی ایجسی کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نےکچھ عرصے قبل متعدد اہم خفیہ دستاویزات میڈیا کے حوالے کیے تھے، جن سے واضح ہوتا تھا کہ واشنگٹن حکومت برسلز اور امریکا میں یورپی یونین کے اہلکاروں کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کے بعد بعض یورپی سیاستدانوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس سے امریکا اور یورپ کے درمیان طے پانے والی ایک بہت بڑی تجارت ڈیل خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ سنوڈن امریکا سے فرار کے بعد ہانگ کانگ اور پھر روس پہنچے تھے۔ ماسکو کے ہوائی اڈے کے ٹرازٹ ایریا میں کئی ہفتے گزارنے کے بعد انہیں روس میں عارضی سیاسی پناہ دے دی گئی تھی۔
سنوڈن کی جانب سے گزشتہ کچھ ہفتوں میں سامنے آنے والے دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ امریکا ایک منظم انداز سے پوری دنیا کے آن لائن ڈیٹا اور ٹیلی فون کالز کی نگرانی کرتا ہے، تاہم ان دستاویزات کے منظرعام پر آنے کے بعد واشنگٹن حکومت کو دنیا بھر سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جمعے کے روز امریکی صدر باراک اوباما نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے نگرانی کے پروگرام میں بڑی تبدیلیوں کا اعلان کیا تھا۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ نگرانی کے اس پروگرام کو مزید شفاف بنایا جائے گا، تاکہ ’ملکی سکیورٹی اور شخصی پرائیویسی‘ کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔