1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہامریکہ

امریکی ملازمتوں میں کٹوتیاں، ہزاروں ایشیائی ملازمین بےروزگار

2 دسمبر 2022

امریکہ میں ٹیکنیکل کمپنیوں کی طرف سے جاب کٹوتی کے سلسلے سے سب سے زیادہ متاثر ایشیائی ورکرز ہوئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے ملازمین کو امریکی کمپنیوں نے ملازمت سے فارغ کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4KOKo
USA Apple-Manager Tim Cook Jonathan Ive
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Chiu

گزشتہ تین سالوں کے دوران مختلف معاشروں کے چند اہم ترین شعبوں میں بہت زیادہ بھوچال آیا۔ یہ شروعات کورونا کی مہلک عالمی وبا سے ہوئی اور اُس کے بعد روس اور یوکرین کی جنگ نے دنیا بھر میں اقتصادی بحران ، کسادبازاری اور توانائی کے بحران کو جنم دیا ۔

 سب سے زیادہ منفی اثرات دنیا بھر میں روزگار کی منڈی پر مرتب ہوئے۔ امریکہ جیسا ملک جس میں ہر طرح کی صنعت اور شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے کبھی روزگار کے بہت مواقع ہوا کرتے تھے، وہاں کسادبازاری اور توانائی کے بحران کی وجہ سے بہت سی کمپنیوں نے ملازمتوں کٹوتی شروع کر دی۔ امریکہ میں ہر شعبے اور کمپنی میں کام کرنے والوں کا ایک اچھا خاصہ بڑا تناسب ایشیائی ورکرز پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔  امریکہ میں ٹیکنیکل کمپنیوں نے ملازمتوں میں کٹوتیاں شروع کیں تو اس فیلڈ میں کام کرنے والے ہزاروں غیرملکیوں کے روزگار کے دروازے بند ہونا شروع ہوئے۔ 

ایشیائی آئی ٹی ماہرین کا مستقبل

امریکہ کی 'ٹیک کمپنیوں‘ کی طرف سے ہزاروں کارکنوں کو  ملازمتوں سے فارغ کیے جانے کی وجہ سے بیرون ملک خاص طور سے ایشیائی ممالک سے امریکہ جا کر کام کرنے والوں کی ملازمتیں غیر متناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ  ایشیائی آئی ٹی ماہرین زیادہ تر ورک ویزا پر امریکہ میں ہیں اور اب  ان کی ملازمتوں کے ختم ہونے سے ان کے سروں پر بے روزگاری کا پہاڑ گرا ہے۔ 

ٹرمپ کی امریکی امیگریشن پابندی سے کون متاثر ہوا ہے؟

حالیہ ہفتوں کے دوران فیس بک کی مالک کمپنی میٹا، ایمیزون اور ٹرانسپورٹ کی بہت بڑی کمپنی لفٹ نے ملازمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے کیونکہ امریکی ٹیک انڈسٹری غیر یقینی معاشی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔

بڑھتی ہوئی شرح سود اور صنعت میں گنجائش سے زیادہ افرادی قوت کی وجہ  سے صرف نومبر میں چھیالیس ہزار ملازمتوں میں کٹوتی کی گئی۔  یہ  اعداد و شمار بے روزگار افراد سے متعلق ایک ویب سائٹ layoffs.fyi  نے منظر عام پر لائے ہیں۔  اس پلیٹ فارم نے برطرف کیے گئے ملازمین کی فہرست بھی تیار کی  تاکہ انہیں آئندہ کے لیے ملازمت پر رکھنے والی کمپنیوں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ اس پلیٹ فارم سے عام ہونے والی خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ میں غیر ملکی کارکنوں کو خاص طور پر برطرفی کی تازہ لہر سے سخت نقصان پہنچا ہے۔امریکی ویزے، پانچ لاکھ سے زائد بھارتیوں پر لٹکتی تلوار

USA Nasdaq-Bildschirm mit Alphabet und Google
کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے متعلق تمام تر نت نئی مصنوعات امریکہ ہی میں ایجاد ہوتی ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lennihan

 

 غیر ملکی ہُنر مند اور امریکی ویزے کا جال

سوجاتا کرشناسوامی جیسے کارکنوں کے لیے، جو نام نہاد H-1B ویزا پر امریکہ آئے تھے، ملازمتوں سے محروم ہونا ان کی رہائشی حیثیت کو خطرہ میں ڈالنے کا باعث   ہے۔ سن دوہزار اکیس کے مالی سال میں منظور شدہ H-1B وصول کنندگان کو ملنے والے روزگار میں سے تقریباً 70 فیصد تکنیکی ملازمتیں تھیں۔ یہ ویزا امریکی آجروں کو مخصوص  ملازمتوں کے لیے غیر ملکیوں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے جن کے لیے بیچلرز ڈگری یا اس کے مساوی کوئی ڈگری ہونالازمی ہے۔ H-1B ویزا رکھنے والے غیر ملکی امریکہ میں اپنی ملازمت کے لیے کمپنیاں تبدیل کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس صرف 60 دن ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ان دو مہینوں میں کوئی نئی نوکری نہیں ملی تو انہیں ملک چھوڑنا پڑتا ہے۔

  نیو یارک میں مقیم لیبر قوانین  کے ایک  وکیل ماہر ناصر کے مطابق  ''یہ تکنیکی برطرفی ایسی چیز ہے جس کا میں نے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔‘‘ وہ 2010ء سے اس شعبے میں کام کر رہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے  برطرف کیے گئے آئی ٹی ماہرین کی اتنی بڑی تعداد پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اس چیز نے انہیں بہت حیران کیا ہے۔

یہ آئی ٹی ماہرین پہلے میٹا، ٹویٹر اور ایمیزون کے لیے کام کرتے تھے اور اب وکیل ماہر ناصر سے مشورہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس وکیل نے  ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان میں بہت سے لوگ بھارت اور ایشیا کے دیگر ممالک سے ہیں۔‘‘

امریکہ کی ٹیکنیکل انڈسٹری میں ایشیائی کارکنوں کی تعداد ہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں مقامی آبادی میں ماہروں کی کمی ہے۔  ویزا کی ضروریات اور ضوابط  کے تحت امریکی آجرین کسی غیر ملک سے آسامی پُر کر سکتے ہیں بشرطیکہ  اس کام کے لیے کوئی امریکی کارکن دستیاب نہ ہو۔

امریکہ کی شہریت اور امیگریشن سروس کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 ء کے بعد سے  ایمیزون، میٹا، لیفٹ سیلزفورس، اسٹرائپ اور ٹویٹر جیسی بڑی امریکی ٹیک فرموں نے مجموعی طور پر 45  ہزار غیر ملکی شہریوں کے لیے ویزا درخواستیں دائر کی تھیں۔

امریکا: دو ماہ تک گرین کارڈ نہ جاری کرنے کا فیصلہ

USA Pontiac Autofriedhöfe
میشیگن میں امریکی موٹر ساز صنعت کا مرکز ہےتصویر: picture-alliance/dpa/ZUMA Wire/J. West

سوجاتہ کرشنا سوامی ان ٹیکنیکل پروفیشنلز میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو غیر ملکی ہنر کی اس ناقابل تسخیر بھوک پر قربان کر دیا۔ انہوں نے کمپیوٹر ساز کمپنی ڈیل میں کئی سالوں تک کام کیا اور اس سے پہلے کہ وہ پی ڈبلیو سی میں مشاورت کے لیے ایک مختصر مدت کے لیےاپنی ملازمت تبدیل کرتیں، مئی 2020 ء میں انہوں نے اپنے ٹوئٹر کیریئر کا آغاز سکیورٹی اینڈ پرائیویسی ڈیپارٹمنٹ میں ٹیکنیکل پروگرام مینیجر کے طور پر کیا۔ انہوں نے LinkedIn پر لکھا،''میں نے دن رات کام کیا یہاں تک کہ جب میں حاملہ تھی۔ میں نے صارفین اور ریگولیٹرز سے ٹویٹر کی سکیورٹی اور پرائیویسی کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ہر روز اپنے دل اور جان سے وقت صرف کیا۔‘‘

کرشنا سوامی نے کہا کہ نومبر کے اوائل میں انہیں مکمل بے خبری میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا اور جو کچھ ہوا اس پر کارروائی کرنے میں انہیں دو دن لگے۔ تاہم کرشنا کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ  ان کا  H-1B ویزا ان کی صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔

بلیو کارڈ اسکیم کا جرمنی میں مستقبل

امریکی ویزا ایک پہیلی

امریکی امیگریشن حکام ہر سال تقریباً 85 ہزار H-1B ویزے جاری کرتے ہیں جو وصول کنندگان کو زیادہ سے زیادہ چھ سال تک ملک میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جن لوگوں نے عارضی رہائشی حیثیت حاصل کی ہے ان میں سے بہت سے اپنے آجروں کے ذریعے نام نہاد گرین کارڈ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انہیں قانونی طور پر مستقل رہائشی کا درجہ دیتا ہے۔

Venezuela stellt Ölverkauf an US-Firma Exxon Mobil ein
تمام تر بڑی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ورکرز یا تو ایشیا یا لاطینی امریکا سے ہوتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Chico Sanchez

گرین کارڈ کے درخواست دہندگان جنہوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی ہیں وہ نہ صرف چھ ماہ کے بعد اپنے H-1B ویزا سے محروم ہو جائیں گے، بلکہ اگر انہیں اسپانسر کے طور پر کوئی نیا آجر نہیں ملتا ہے تو وہ گرین کارڈ حاصل کرنے کا موقع بھی کھو دیں گے۔

ہر سال امریکی آجروں کی طرف سے گرین کارڈز کے لیے سپانسر کیے جانے والے غیر ملکی کارکنوں کی تعداد سالانہ قانونی حد سے تجاوز کر جاتی ہے۔  اس عددی حد کساتھ ساتھ ایک اور حد یہ ہے کہ کچھ ممالک کے لیے روزگار پر مبنی گرین کارڈ کے حصول کی 7 فیصد حد بھی مقرر ہے۔ اس  کا مقصد روزگار پر مبنی گرین کارڈ کے حصول پر اجارہ داری کو روکنا ہے۔شاہ رخ خان ایک بار پھر امریکی امیگریشن کی لپیٹ میں

امیگریشن پالیسی کے تجزیہ کار ولیم اے کینڈل نے امریکی کانگریس کو 2020 ء میں  ایک خصوصی رپورٹ پیش کی تھی جس میں لکھا  تھا، ''  بڑی تعداد میں تارکین وطن بھجوانے والے ممالک کے شہریوں کے لیے مذکورہ عددی حد اور فی ملک کی حد دراصل روزگار پر مبنی گرین کارڈز کے لیے غیر معمولی طور پر طویل انتظار کی وجہ بنی ہے۔‘‘ رپورٹ میں کنڈیل کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی باشندوں کے لیے گرین کارڈ حاصل کرنے کے لیے متوقع انتظار کا وقت 195 سال ہوگا۔

(سابرینا کیسلر) ک م/ ش خ