امن مذاکرات پر پاکستانی طالبان منقسم
25 اگست 2013پاکستانی طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے عصمت اللہ معاویہ کو تنظیم سے نکال دیا ہے۔ شاہد کے مطابق یہ فیصلہ تنظیم کی اعلیٰ قیادت نے کیا ہے۔ معاویہ کو نکالنے کا فیصلہ اس بیان پر کیا گیا جس میں معاویہ نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے طالبان عسکریت پسندوں کو امن مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ شاہد کے مطابق معاویہ کو حکومت کی پیشکش کا جواب دینے کی اتھارٹی نہیں تھی۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق تحریک طالبان کی قیادت مذاکرت کے بارے میں جلد کوئی فیصلہ کرے گی، تاہم حکومت پاکستان کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنا ہوگی۔
پنجابی طالبان
طالبان حکومت سے مذاکرات کے موضوع پر منقسم دکھائی دے رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق معاویہ کی جانب سے حکومت کو سراہنا اور پھر ان کا تنظیم سے اخراج اس سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب معاویہ نے تحریک طالبان کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجابی طالبان ایک علیحدہ گروپ ہے اور اس کی تنظیم خود اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کس کو نکالا یا رکھا جائے۔
پیشکش کا خیر مقدم
معاويہ نے جمعرات کے روز جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں پاکستانی وزير اعظم نواز شريف کی جانب سے گزشتہ پیر کے روز کی جانے والی امن مذاکرات کی پيشکش کا خير مقدم کيا تھا۔ معاويہ کے بقول اگر پاکستان مسلح تنازعے کے حل کے ليے سنجيدہ ہے تو طالبان کو بھی اس پر مثبت رد عمل کا اظہار کرنا چاہيے۔ معاويہ کو پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والےاسلامی عسکریت پسندوں کا سربراہ بتايا جاتا تھا۔ شاہد اللہ شاہد کا کہنا کہ طالبان پنجاب میں اپنے نئے سربراہ کا جلد اعلان کریں گے۔
واضح رہے کہ وزير اعظم نواز شريف نے گزشتہ پیر کے روز ٹيلی وژن پر نشر کردہ اپنی ايک تقرير ميں ملک ميں جاری خوں ريزی کے خاتمے کے ليے طالبان کو بات چيت کی پيشکش کی تھی جس پر معاویہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے مذاکرات کی پیشکش کر کے ’’سیاسی پختگی‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ طالبان کے کمانڈر کا مزید کہنا تھا، ’’اگر موجودہ حکومت معاملات کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور سمجھداری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں فعال جہادی طاقتیں اس کا مثبت جواب نہ دیں۔‘‘ یہ بیان معاویہ کی جانب سے صحافیوں کو بھجوایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کے بر خلاف مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گی اور فوجی کارروائی سے اجتناب برتے گی۔ دوسری جانب افغانستان سے ملحقہ خیبر پختون خواہ صوبے میں برسر اقتدار تحریک انصاف بھی اسلامی عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی حامی ہے۔ تاہم ان جماعتوں کے مذاکرات پر اصرار کے باوجود اس ضمن میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور طالبان کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔