ایک کم سن لڑکی کم عمری کی شادیوں کے خلاف کمر بستہ
22 جون 2015دہشت گردی سے متاثرہ وادی سوات کے علاقے سیدو شریف سے تعلق رکھنے والی 14سالہ حدیقہ بشیر آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد بھی کر رہی ہے اور کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کے خلاف مہم چلانے کے ساتھ ساتھ ہر فورم پر اس کے خلاف آواز بھی بلند کر رہی ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے حدیقہ کا کہنا تھا:’’میری ایک سہیلی تھی، جس کی بچپن میں شادی ہوئی، جس میں نے بہت خوشی سے شرکت بھی کی تھی۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہے کہ جب ایک عرصے بعد اس کی ملاقات اپنی سہیلی سے ہوئی تو اس نے سسرال والوں کی جانب سے تشدد اور ذہنی اذیت سے آگاہ کیا:’’تب مجھے احساس ہوا کہ بچپن میں شادی کرنا زندگی ختم کر دینے کے مترادف ہے۔‘‘
حدیقہ کے بقول اس کے بعد اُس نے اور اُس کی سہیلیوں نے فیصلہ کیا کہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے خلاف آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے:’’میرے گروپ میں میری دیگر سہیلیاں بھی ہیں، جو میرے ساتھ مہم میں شامل ہوتی ہیں، ہم گھر گھر جا کر لوگوں کو آگاہی دیتے ہیں، انہیں سمجھاتے ہیں کہ اپنے بچوں سے ان کا بچپن مت چھینیں، انہیں پڑھنے دیں اور انہیں کھیلنے دیں۔ جب بیٹیاں سمجھ دار ہو جائیں اور جان جائیں کہ ایک گھر کو کیسے سنبھالا جاتا ہے تو تب اگر ان کی شادی کی جائے تو کوئی پریشانی والی بات نہیں۔‘‘
سوات سمیت خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں تنازعات ختم کرنے کے لیے اب بھی کم عمر بچیوں کو جرگوں کے فیصلوں کے مطابق سورہ میں دے دیا جاتا ہے۔ سورہ بدلہ یا صلح کے تحت کمسن لڑکیوں کے رشتے دینے کی ایک رسم ہے۔
حدیقہ نے اپنے گروپ کا نام ’’ گرلز یونائیٹڈ فار ہیومن رائٹس‘‘ رکھا ہوا ہے۔ حدیقہ مزید کہتی ہیں کہ بچپن میں لڑکیوں کی شادی کروانے سے بہت سے نقصانات سامنے آتے ہیں:’’کھیل کھود کی عمر میں جب ایک بچی کی شادی ہوتی ہے تو اس کے صحت پر، اس کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، خود کو سنبھالا نہیں جاتا اور ایک پورے خاندان کو سنبھالنا ہوتا ہے، جب اس کے دوسرے ہم عمر بچے کھیل کھود اور پڑھائی میں مصروف ہوتے ہیں تو وہ بچی گھریلو کام کاج اور بچوں کو پالنے میں مصروف ہوتی ہے‘‘۔
حدیقہ کے بقول اب تک مہم کے دوران جتنے لوگوں کو بھی آگاہی دی گئی ہے، اس کے بہت اچھے اثرات سامنے آ رہے ہیں اور لوگ اب اس پیغام کوخود ہی دوسروں تک پہنچا رہے ہیں:’’ہم اب تک اس طرح کی دو تین شادیاں رکوا چکے ہیں‘‘۔
حدیقہ نے اپنی اس جدوجہد کو صرف گھروں کی سطح تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ سکولوں اور کالجوں میں مختلف اوقات میں سیمینارز یا دیگر تقاریب میں شرکت کر کے اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچا رہی ہے۔ دوسری جانب علاقے کے لوگ اور اس کے والدین اُس کی محنت پر خوش ہونے کے ساتھ ساتھ فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ حدیقہ کے والد افتخار حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اپنی بیٹی کے ارادوں پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مکمل تعاون کرتے ہیں:’’ ہم خوش ہیں کہ ہماری بیٹی اتنی کم عمری میں ایک نیک مقصد کے لیے میدان میں اتری ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ حدیقہ اپنے مقصد میں کامیاب ضرور ہو گی کیونکہ وہ باہمت اور ذہین بچی ہے۔‘‘
حدیقہ کی جدوجہد آہستہ آہستہ ہی سہی مگر مثبت نتائج سامنے لا رہی ہے اور لوگ اس کے پیغام کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ سیدو شریف کی رہائشی خاتون عظمیٰ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حدیقہ نے ایک نیک کام شروع کیا ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ اُس کی حوصلہ افزائی کریں:’’ہمارے خاندان میں پہلے بہت سی ایسی شادیاں ہو چکی ہیں اور اس کے نقصانات بھی ہم دیکھ چکے ہیں، حدیقہ کی وجہ سے ہم جان گئے ہیں کہ کم عمری میں بچوں کی شادی سے اجتناب کرنا چاہیے اور اب ہم خود بھی اس کے خلاف ہیں‘‘۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں کی کم عمری میں شادی ان کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔ حدیقہ کی خواہش ہے کہ اور لوگ بھی آگے آئیں اور اِس مشن میں اُس کا ساتھ دیں۔