1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بائیڈن اور ایردوآن کے درمیان پہلی بات چیت

24 اپریل 2021

امریکی صدر جو بائیڈن نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔ بائیڈن آرمینیائی'قتل عام‘ کو باضابطہ تسلیم کرنے پر بھی غورکررہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3sVgJ
Joe Biden und Recep Tayyip Erdogan
تصویر: Kayhan Ozer/AA/picture alliance

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوآن کے ساتھ جمعے کے روز فون پر بات چیت کی۔ بائیڈن اس بات پر غور کررہے ہیں کہ آیا سن 1915 میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی عوام کے خلاف ظلم و جبر کے واقعات کو امریکا باضابطہ تسلیم کرے یا نہ  کرے۔

یہ معاملہ ترکی کے ساتھ امریکی سفارت کاری کے لیے ہمیشہ سے ہی مشکل اور تنازعہ کا سبب رہا ہے۔ سابقہ امریکی صدورباہمی تعلقات خراب ہونے کے خدشے کے مدنظر اس معاملے کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف ترکی'قتل عام‘کے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔

آرمینیائی 'قتل عام‘

دونوں ملکوں کے صدور کے درمیان پہلی فون کال کے حوالے سے امریکا اور ترکی کی حکومتوں نے جو بیانات جاری کیے ہیں ان میں آرمینیائی'قتل عام‘ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

 سن 1915میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کی ہفتے کے روز  106ویں برسی ہے۔ ان واقعات میں ہزاروں آرمینیائی مارے گئے تھے اور ان کے ورثاء اسے عالمی برادری کی جانب سے قتل عام کا واقعہ قرار دیے جانے کے لیے ایک عرصے سے مہم چلارہے ہیں۔

Armenien Gedenken Massaker an den Armeniern während des Ersten Weltkriegs
تصویر: Ashot Gazazyan/DW

امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان جالینا پورٹر سے جب نامہ نگاروں نے پوچھا کہ کیا صدر بائیڈن اس حوالے سے ہفتے کے روز مجوزہ تقریب میں کوئی بیان دیں گے تو انہوں نے کہا،” کل(ہفتے کو) اعلان متوقع ہے۔"

ترکی کا کہنا ہے کہ یہ قتل عام کا واقعہ نہیں تھا بلکہ پہلی عالمی جنگ کے وسیع تر مضمرات کا نتیجہ تھا جس میں آرمینیائی نسل سے تعلق رکھنے والے باشندے ہلاک اور ملک بدر ہوئے تھے۔

ترکی کے دباؤ کے باوجود فرانس اور جرمنی جیسے کئی ممالک اس واقعے کو قتل عام قرار دے چکے ہیں تاہم بہت سے ممالک نے اسے باضابطہ قتل عام تسلیم نہیں کیا ہے۔ اگر امریکا بھی اسے قتل عام تسلیم کرلیتا ہے تو یہ اس کے لیے مہم چلانے والوں کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوگلو نے گذشتہ ہفتے متنبہ کیا تھا کہ بائیڈن اگر ایسا کرتے ہیں تو اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تلخی پیدا ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا،” اگر امریکا تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے تو یہ فیصلہ کرنا اس کی مرضی ہے۔"

ترکی میں موجود ایغور مسلمان، چین بدر کیے جانے کے خوف میں

بائیڈن اور ایردوآن میں کیا بات ہوئی؟

وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن نے ایردوآن سے کہا کہ انہیں اختلافات کو ختم کرنے میں دلچسپی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے،”صدر بائیڈن نے ترک صدر رجب طیب اردوآن سے بات چیت کی اور تعمیری دوطرفہ تعلقات کے سلسلے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا، باہمی تعاون کو وسعت دینے اور اختلافات کو موثر انداز میں دور کرنے پر زور دیا۔"

ترکی کے صدارتی دفتر کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن اور ایردوآن ”باہمی تعلقات کے اسٹریٹیجک کردار اور باہمی دلچسپی کے امور پر زیادہ وسیع تر تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر متفق تھے۔"

بائیڈن کے جنوری میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے تین ماہ کے انتظار کے بعد ترک صدر کے ساتھ بات چیت پر انقرہ میں تشویش ظاہر کی جارہی ہے۔

وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں صدور جون میں ہونے والے نیٹو سربراہی کانفرنس کے دوران ملاقات کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ اس موقع پر دونوں رہنما باہمی تعلقات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کریں گے۔

 ج ا/  ک م  (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں