بِل کلنٹن کی کامیابی: دونوں گرفتار امریکی صحافی رہا
5 اگست 2009واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق سابق صدر بل کلنٹن کا دورہء شمالی کوریا ثالثی کی کوئی سرکاری کاوش نہیں تھا۔ مگر وہاں زیر حراست دونوں امریکی شہریوں کی رہائی کی خاطر یہ ایک ایسا مشن تھا، جس کے بارے میں امریکی حکومت سے باقاعدہ مشورے کئے گئے تھے اور وائٹ ہاؤس نے یہ فیصلہ گزشتہ ہفتہ کیا تھا کہ بل کلنٹن کو دونوں صحافی خواتین کی رہائی کے لئے پیونگ یونگ بھیجا جانا چاہیے۔
بل کلنٹن کا شمالی کوریا میں اس لئے بہت احترام کیا جاتا ہے کہ ان کے دور صدارت میں واشنگٹن کے پیونگ یونگ کے ساتھ رابطے اتنی زیادہ کشیدگی کا شکار نہیں تھے جتنے کہ کلنٹن دور کے بعد کے برسوں میں۔ بل کلنٹن کے پیونگ یانگ جانے سے پہلے دونوں امریکی صحافیوں کی ممکنہ رہائی سے متعلق تمام مذاکراتی مراحل طے کئے جا چکے تھے۔ اس لئے کہ امریکہ یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا کہ سابق صدر کمیونسٹ کوریا جا کر وہاں سے خالی ہاتھ لوٹیں۔
اس بارے میں امریکی سینیٹ کے ریپبلکن رکن لنڈسے گریہم کہتے ہیں کہ کسی سابق صدر کو ایسے کسی مشن پر یہ جانے بغہر نہیں بھیجا جاتا کہ وہ کامیاب رہیں گے۔
شمالی کوریا میں زیر حراست دونوں امریکی صحافیوں کی رہائی کی کوششوں میں بظاہر ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب امریکہ نے اپنا یہ مطالبہ ترک کردیا کہ ان خواتین کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر رہا کیا جائے۔ اس کی بجائے معافی کی درخواست کی گئی، جس کا شمالی کوریا کے لئے مطلب یہ تھا کہ واشنگٹن نے ان دونوں امریکی شہریوں کے اس جرم کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ عملی طور پر شمالی کوریا کے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی تھیں۔
ہلیری کلنٹن کے ایک سابقہ مشیر ڈگ ہیڈ اوے اِس مناسبت سے کہتے ہیں کہ بظاہر شمالی کوریائی حکومت نے ان خواتین کے اہل خانہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر بل کلنٹن ذاتی طور پر پیونگ یونگ آئیں تو ان صحافیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
اسی دوران امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا لہجہ بھی بدل گیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ ان دونوں امریکی صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو اس واقعے پر بہت افسوس ہے۔ اس واقعے کے رونما ہونے کے سلسلے میں ہر کسی کو افسوس ہے۔
بل کلنٹن کے دورہء شمالی کوریا اور پھر دونوں امریکی صحافیوں کی رہائی کے بعد یہ امید منطقی ہو گی کہ واشنگٹن کے پیونگ یونگ کے ساتھ تعلقات میں آئندہ کچھ بہتری آ سکتی ہے۔ اس لئے کہ سابق امریکی صدر کے اس دورے کے نتیجے میں دو امریکی شہریوں کی رہائی تو ممکن ہو گئی، لیکن ساتھ ہی مستقبل میں دونوں ملکوں کے مابین سفارتی اور کسی حد تک سیاسی فاصلوں میں کمی کی توقع بھی کی جارہی ہے۔
اس کا ایک ثبوت یہ کہ بل کلنٹن جب پیونگ یونگ پہنچے تو ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کمیونسٹ کوریا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تنازعے میں اس کے اعلیٰ ترین مذاکراتی مندوب نے کیا۔ پھر اپنی آمد کے کچھ ہی دیر بعد بل کلنٹن نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ال سے ملاقات بھی کی۔
واشنگٹن میں سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین برف پگھلنے کا یہ عمل ایک بڑی پیش رفت کی ابتداء بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں تک بل کلنٹن کے دورے کے فوری عملی نتائج کا تعلق ہے تو وہ آج بدھ کی صبح، رہائی پانے والی د ونوں امریکی صحافی خواتین کے ہمراہ، پیونگ یونگ سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے واپس امریکہ روانہ ہو گئے۔