بھارت میں نیپالی خواتین کا ’گینگ ریپ‘: سعودی سفیر کی طلبی
10 ستمبر 2015بھارتی دارالحکومت سے جمعرات دس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق نئی دہلی میں ملکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے آج بتایا کہ سعودی عرب کے بھارت متعینہ سفیر کو اس لیے طلب کیا گیا کہ شدید نوعیت کے ان قانونی الزامات کی چھان بین میں مدد لی جا سکے، جن کے تحت ایک سعودی سفارت کار اور اس کے مہمانوں کی طرف سے نئی دہلی کے قریب گڑ گاؤں میں ایک فلیٹ پر دو نیپالی ملازماؤں کے ساتھ بار بار جنسی زیادتیاں کی جاتی رہیں۔
ان خواتین کی عمریں تیس اور پچاس برس بتائی گئی ہیں اور پولیس نے اس بارے میں جو مقدمہ درج کیا ہے، اس کے مطابق متعلقہ سعودی سفارت کار نے اپنی ان دونوں نیپالی گھریلو ملازماؤں کو قریب تین ماہ تک نہ صرف گڑ گاؤں میں ایک گھر پر قید رکھا بلکہ اس دوران ان پر تشدد کرنے اور انہیں اکثر بھوکا رکھنے کے علاوہ ان کا بار بار ریپ بھی کیا گیا۔ ان خواتین کا الزام ہے کہ اس دوران اس سعودی سفارت کار نے، جس کا نام نہیں بتایا گیا، اپنے مہمانوں کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر ان کا گینگ ریپ بھی کیا۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ویکاس سواروپ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’وزارت خارجہ نے سعودی سفیر سعود محمد الستی تک پولیس کی یہ درخواست پہنچا دی ہے کہ دو نیپالی شہریوں کی طرف سے درج کرائے گئے مقدمے میں سعودی سفارت خانہ پولیس کے ساتھ تعاون کرے۔‘‘
یہ مقدمہ درج کرائے جانے کے بعد پولیس نے کل بدھ کو رات گئے کہا تھا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ سعودی اہلکار کو سفارتی مامونیت حاصل ہے، پولیس کے تفتیشی ماہرین اپنی چھان بین جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء نئی دہلی میں سعودی سفارت خانے کی طرف سے یہ کہا جا چکا ہے کہ اس سلسلے میں نیپال کی شہری دو گھریلو خادماؤں کی طرف سے لگائے گئے تمام ’الزامات بے بنیاد ہیں، جو نہ صرف جھوٹ پر مبنی ہیں بلکہ ابھی تک ثابت بھی نہیں ہوئے‘۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جس سعودی سفارت کار کے خلاف حبس بےجا، تشدد اور جنسی زیادتیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں، وہ اب نئی دہلی کے نواح میں گڑ گاؤں میں متعلقہ فلیٹ سے سعودی سفارت خانے میں منتقل ہو گیا ہے۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ دونوں نیپالی خادمائیں اب واپس نیپال میں اپنے گھروں کو لوٹ چکی ہیں۔
حکام کے مطابق ان دونوں نیپالی خواتین کو گزشتہ پیر کو رات گئے پولیس نے سعودی سفارت کار کے فلیٹ پر چھاپہ مار کر رہا کروایا تھا اور ان کی رہائی ایک ایسی تیسری ملازمہ کی وجہ سے ممکن ہو سکی تھی، جس نے ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم کو ان خواتین پر کیے جانے والے تشدد اور جنسی زیادتیوں کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔