1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تجزیہ: تاریخی انتخابات کے بعد پاکستان فیصلہ کُن موڑ پر

13 مئی 2013

پاکستان کے پارلیمانی انتخابات میں سابق وزیر اعظم نواز شریف فاتح بن کر ابھرے ہیں، تاہم ان تاریخی انتخابات میں سب سے بڑی جیت عوام کی ہوئی ہے جو طالبان کے خوف کے باوجود ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکلے۔

https://p.dw.com/p/18WZM
تصویر: picture alliance/AP Photo

نواز شریف نے ہفتے کو انتخابات کے لیے ووٹنگ کا سلسلہ ختم ہونے کے فوراﹰ بعد ہی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی جیت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حیرت انگیز شکست اور عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف ( پی ٹی آئی) کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر متوقع فتح سے پاکستانی سیاست میں تبدیلی کے رجحان کا واضح اشارہ ملتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی منتخب حکومت کی جانب سے مدت پوری کرنے کے بعد انتخابات کا کامیاب انعقاد ہوا۔ یوں ایک ایسے ملک میں جمہوری عمل کا تسلسل بڑی کامیابی ہے جہاں فوج مجموعی طور پر 30 برس سے زائد عرصہ حکومت کر چکی ہے جبکہ نگران حکومتوں میں اقتدار سے جڑے رہنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔

Asif Ali Zardari
پاکستانی صدر آصف زرداریتصویر: Getty Images

مشکل حالات

اس کامیابی کے باوجود یہ ایک مشکل سفر کا آغاز ہے۔ رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے برعکس ایک پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں کہ سابق حکمران جماعت پی پی پی کی شکست کا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچ سکتا ہے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ پنجاب میں روایتی سیاست بدستور برقرار ہے۔ تاہم مجموعی طور پر دیگر تین صوبوں میں صورتِ حال یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے جبکہ پنجاب میں پی ایم ایل این فاتح رہی ہے جبکہ سندھ میں صدر آصف زرداری کی پی پی پی۔

ان انتخابات کے نتیجے میں سب سے حیران کُن بات پی ٹی آئی کی کارکردگی ہے جس نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پی پی پی دونوں کو شکست دی ہے۔ یہ جماعت ہزارہ کے علاقے میں بھی بڑی طاقت بن کر ابھری ہے جہاں روایتی طور پر پی ایم ایل این کا اثر رہا ہے۔

بلوچستان میں پی ایم ایل این بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت تشکیل دے سکتی ہے، تاہم بلوچستان کے بارے میں کوئی بھی پیشن گوئی قبل ازوقت ہو سکتی ہے۔

پھولوں کی سیج؟

نواز شریف کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فوری طور پر کارکردگی دکھانی ہو گی۔ مغرب میں انہیں عملی نوعیت کے سیاستدان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امریکی حکومت کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی سے متعلق ان کے بیانات بھی تسلی کی وجہ ہو سکتے ہیں، لیکن یہ ایسا کام ہے جو کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔

طالبان اور لشکرِ جھنگوی جیسی اسلامی شدت پسند تنظیموں کی طرف بھی نواز شریف کا رویہ نرم خیال کیا جاتا ہے جو ان کی انتخابی فتح کے پیکیج کا حصہ ہے۔ وہ پنجاب میں دائیں بازو کے ان حلقوں میں پائی جانے والی اپنی حمایت کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اس کے ساتھ ہی پنجابی سیاست پر ان کی یہ توجہ انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اچھا سیاستدان نہیں بناتی۔

دوسری جانب انہیں توانائی کا بحران ختم کرنے کے لیے اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے کے لیے بھی تیز تر کارروائی کرنی ہو گی۔ ان کی انتخابی مہم کا مرکز بنیادی طور پر عوامی مسائل تھے اور انہوں نے راتوں رات ملک کی تقدیر بدلنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب جبکہ انتخابی عمل مکمل ہو گیا ہے، عوام تبدیلی دیکھنا چاہیں گے۔ ان کی فوری کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے گا کہ وہ پاکستانیوں کے روز مرہ مسائل کیسے حل کرتے ہیں۔

کاروبار و تجارت

اس شعبے میں نواز شریف یقینی طور پر اچھا انتخاب ہیں۔ بھارت میں ان کے کاروباری مفادات دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتِ حال دونوں ملکوں کی افغانستان کے لیے پالیسی پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ دونوں فریقین اپنے مؤقف میں نرمی لائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی ایران کے ساتھ توانائی کے شعبے میں پاکستان کے تعلقات میں بھی بڑی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ صدر آصف زرداری نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے میں پیش قدمی کی تھی، جسے امریکا کی کھلی مخالفت کا سامنا تھا۔ تاہم اب صورتِ حال دلچسپ ہے کہ کیا سعودی نواز سنی رہنما نواز شریف اس معاہدے پر قائم رہتے ہیں۔

Altaf Khan
ڈی ڈبلیو اردو سروس کے سربراہ الطاف اللہ خانتصویر: DW/M.Müller

طالبان کے ساتھ مذاکرات

خیبر پختونخواہ میں پشتونوں نے تبدیلی اور امن کے لیے عمران خان کو ووٹ دیا ہے۔ امن کے لیے خان کے وعدے کی بنیاد طالبان کے ساتھ بات چیت اور امریکی مداخلت کے بغیر ایک آزاد خارجہ پالیسی پر ہے۔ یہ باتیں انہیں دائیں بازو کی جماعت اسلامی کے قریب لے آئی ہیں اور یہ پارٹی بھی اس صوبے میں فاتح رہی ہے۔ پی ٹی آئی صوبائی حکومت کی تشکیل کے لیے جماعت سے باآسانی اتحاد بنا سکتی ہے۔

لبرل سوچ کی شکست

پاکستان میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کی صورتِ حال بھی ایک سوال ہے۔ پی پی پی کی شکست کے ساتھ وہاں اب اکثریتی وہابی قیادت ہے، جو طالبان کے ساتھ سمجھوتے کی پرزور حامی ہے۔

گزشتہ حکومت کے دور میں اقلیتی شیعہ مسلمانوں پر حملے ہوتے رہے ہیں اور یہ خدشہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری اقدامات نہ کیے تو یہ سلسلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔

پاکستان ہمیشہ کی طرح بدستور فیصلہ کُن موڑ پر ہے۔ ساری دنیا خوف اور امید کے ساتھ پاکستان پر نظریں لگائے ہوئے ہے، شاید خوف امید پر حاوی ہے۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان کی نئی قیادت دنیا کو اس بات کی یقینی دہانی کروائے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ امید باقی ہے کہ پاکستان سیاست میں سامنے آنے والے نئے کردار، پرانوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک اور دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

تجزیہ: الطاف اللہ خان ab/ai/