ترکی: معاملات کیا بہتر ہونے کے بجائے خراب ہو رہے ہیں؟
22 دسمبر 2016ترکی کے پرتشدد سیاسی مسائل میں سب سے اہم کردوں کی علیحدگی پسند تحریک کو قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس سے انقرہ حکومت کو اِس تحریک کے نئے مسلح حملوں کا سامنا ہے۔ اسی دوران رواں برس جولائی میں فوج کی ناکام بغاوت نے مجموعی سلامتی کی صورت حال کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ حکومت اپنی سی کوششوں میں ہے کہ سکیورٹی مسائل کو گھمبیر ہونے سے بچایا جائے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردانہ کارروائیوں سے حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب تر ہو رہے ہیں۔
حال ہی میں روسی سفیر کے قتل نے ترکی کی سکیورٹی کے ستونوں کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ اس قتل کی ترکی اور روس مشترکہ طور پر تفتیش کر رہے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے سیاسی و سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ قتل ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ تفتیش کار ہی طے کریں گے کہ سفیر کے قتل میں کون ملوث ہے۔
ترک حکومت اِس قتل کو امریکا مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی مزاحمتی تحریک کا شاخسانہ قرار دیتی ہے۔ گولن اس قتل میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ دوسری جانب جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کی ذمہ داری بھی ایردوآن حکومت گولن پر عائد کرتی ہے اور ایمرجنسی قانون کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو قید کیا جا چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال نے ترک حکومت کی برداشت کی قوت کو بھی کم کر دیا ہے اور اِس باعث وہ کئی معاملوں میں مناسب ردعمل ظاہر کرنے میں دانش مندی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہی ہے۔ یہ بھی اہم خیال کیا جا رہا ہے کہ شام میں اسلام پسند باغی گروپوں کی عملی حمایت کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ترک نوجوانوں میں بنیاد پرستانہ رجحان سرایت کرنا شروع ہو گیا ہے۔
سویڈن میں قائم مرکز برائے ایشیا، قفقاذ اور سِلک روڈ پروگرام کے تجزیہ کار حلیل کاراویلی کا کہنا ہے کہ ترکی میں پیدا شدہ صورت حال کو انقرہ کی بعض پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کاراویلی کے مطابق ترکی کے اندر ترک قوم پرستانہ رویوں کی شدت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ سنی مسلمانوں کے بنیاد پرستانہ عقائد کے فروغ نے بعض علاقوں کے افراد کو شدید انداز میں متاثر کیا ہے اور اس باعث ایردوآن حکومت کو ان ترک باشندوں کی للکار کا سامنا ہے۔