‘ترک نژاد جرمن شہری آج بھی ذہنی طور پر ترکی سے قریب ہیں‘
25 جولائی 2018جرمنی میں ڈوئس برگ ایسن یونیورسٹی میں ترک اسٹڈیز کے انسٹیٹیوٹ کی جانب سے مرتب کرائے گئے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں مقیم تین ملین افراد، جن کی جڑیں ترکی میں ہیں، خود کو جرمنی کی نسبت ترکی سے زیادہ قریب اور جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
یہ مطالعہ ترک نژاد مسلمان جرمن فٹ بالر میسوت اوزاِل کے قومی ٹیم سے استعفے دینے کے ایک روز بعد شائع کیا گیا ہے۔ اتوار کے دن اوزاِل نے ٹوئٹر پر ایک مفصل بیان جاری کیا اور کہا کہ وہ اب جرمنی کی قومی ٹیم کے لیے نہیں کھیلیں گے کیونکہ انہیں اپنے ترک پس منظر کی وجہ سے ’نسل پرستانہ‘ سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مئی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ملاقات اور فیفا ورلڈ کپ 2018 میں گروپ اسٹیج میں ہی جرمن ٹیم کی شکست کے بعد سے اوزاِل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
جاری ہونے والے جائزے کے بعد مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے ہیں۔
1۔ قریب 89 فیصد ترک نژاد جرمن شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ ترکی سے ’زیادہ‘ یا ’بہت زیادہ‘ مضبوط تعلق محسوس کرتے ہیں۔
2۔ 83 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ جرمنی اور ترکی دونوں ملکوں میں کسی حد تک یا زیادہ گھر جیسا محسوس کرتے ہیں۔
3- 38 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ ترکی کبھی واپس نہیں جائیں گے، 15 فیصد مستقل طور پر ترکی واپس جانا چاہتے تھے اور 37 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ ترکی اور جرمنی دونوں ملکوں میں رہنا چاہتے ہیں۔
4- 19.06 فیصد جرمن سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ 47 فیصد کو اس موضوع سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔
5- 33.09 فیصد کو ترکی کی سیاست میں بے پناہ دلچسپی ہے جبکہ 30.7 فیصد نے زیادہ لگاؤ ظاہر نہیں کیا۔
ترک نژاد جرمن فٹ بالر میسوت اوزاِل نے جرمنی کی فٹ بال ٹیم سے استعفے بعض سیاست دانوں اور مداحوں کی جانب سے صدر ایردوآن کے ساتھ تصویر لینے پر تنقید کے بعد دیا تھا۔ اوزاِل نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جب وہ ٹیم کے لیے اچھا کھیلیں تب وہ جرمن کہلاتے ہیں اور جب ٹیم اچھا پرفارم نہ کر سکے تو انہیں غیرملکی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
ص ح / ا ا / نیوز ایجنسی