ترک کی مسلح افواج میں تیس ہزار نئی بھرتیاں ہوں گی
16 نومبر 2016رواں برس جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افسروں اور فوجیوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ملکی فوج تعداد کی کمی شکار ہے۔ بدھ 16 نومبر کو ترک وزرات دفاع کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اگے چار برسوں کے دوران ترک حکومت ملکی مسلح افواج میں تیس ہزار نئی بھرتیاں کرے گی۔
یہ بات اہم ہے کہ جولائی کے وسط میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے جن کا تعلق فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری محکموں سے تھا۔ ملازمتوں سے برطرف کیے گئے ان افراد میں سے قریب بیس ہزار کا تعلق ملکی مسلح افواج سے ہے، جن میں سے سولہ ہزار زیر تربیت فوجی تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور ترکی کے مغربی اتحادی ممالک کی جانب سے اس حکومتی کریک ڈاؤن پر شدید تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ صدر رجب طیب ایردوآن آمرانہ طرز حکومت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ناکام فوجی بغاوت کو نکتہ بنا کر اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ترک وزارت دفاع سے وابستہ ذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اگلے چار برس کے دوران ملکی بری اور بحری فوج میں تیس ہزار ایک سو انسٹھ نئی بھرتیاں کی جائیں گی۔
ترک فوج کے ایک ترجمان نے بھی ان خبروں کی تصدیق کی ہے، تاہم اس حوالے سے درست تعداد نہیں بتائی گئی ہے۔ فوجی بیان کے مطابق اس وقت فوجیوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔
انقرہ حکومت ناکام فوجی بغاوت کا الزام جلاوطن مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کرتی ہے، جب کہ گولن ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ جولائی کی 15 تاریخ کو ہونے والی بغاوت میں ان فوجی افسروں نے حصہ لیا جو گولن تحریک کا حصہ تھے۔
امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے فتح اللہ گولن نے فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے اور اس میں ملوث ہونے کے تمام تر الزامات کو رد کیا ہے۔