ترک یونان سرحد پر ایک مہاجر لڑکی کی پُر اسرار موت
30 نومبر 2022''ماریہ مر چکی ہے۔ وہ اگست کے اوائل میں یورپ کی بیرونی سرحدوں پر مر گئی تھی کیونکہ یونانی حکام نے اسے کسی قسم کی مدد دینے سے انکار کیا تھا۔‘‘
یہ دو جملے موسم گرما کے آخر میں جرمن نیوز میگزین ڈیئر اشپیگل میں شائع ہونے والے چار مضامین میں سے ایک میں تھے۔ تاہم یہ رپورٹس اب دستیاب نہیں ہیں۔ ان کی جگہ اب ایک بیان ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے واقعات کی ماضی کی تفصیل کے بارے میںشکوک و شبہات ہیں۔ ڈیئر اسپیگل اب رپورٹنگ کا جائزہ لینا چاہتا ہے اور پھر فیصلہ کرنا چاہتا ہے کہ آیا مضامین ''اگر ضروری ہو تو درست اور اپ ڈیٹ شدہ شکل میں دوبارہ شائع کیے جائیں گے۔‘‘
واپس لیے گئے مضامین میں ان 38 پناہ گزینوں کے ایک گروپ کے بارے میں بتایا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر شام سے تھےاور وہ یونان اور ترکی کے درمیان دریائے ایوروس کے ایک چھوٹے سے غیر آباد جزیرے پر گزشتہ موسم گرما میں کئی ہفتوں سے پھنسے ہوئے تھے۔ اس گروپ نے یونانی حکام سے کہا تھا کہ وہ انہیں اپنے ملک میں جانے دیں اور وہ امدادی تنظیموں اور صحافیوں سے بھی رابطے میں تھے۔
یونان اور ترکی کے درمیان تجارت
یہ واقعہ ہفتوں تک جاری رہا۔ واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے پناہ گزینوں نے ایک چھوٹی بچی کے لیے مدد مانگی جسے مبینہ طور پر بچھو نے ڈس لیا تھا اور اس کی حالت تشویشناک تھی۔ کچھ دنوں بعد ان پناہ گزینوں نے اعلان کیا کہ لڑکی مر گئی ہے اور انہوں نے اسے جزیرے پر دفن کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس گروپ کی گوگل لوکیشن شیئر کی گئی، جس میں انہیں سرحد کے یونانی جانب دکھایا گیا۔یورپی عدالت انصاف نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے یونانی حکام سے لوگوں کو بچانے کے لیے کہا۔
ابتدائی طور پر حکام نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ پھر انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ گروپ کو تلاش نہیں کر سکے۔ بعد میں یونانی حکومت نے وضاحت کی کہ یہ گروپ سرحد کے پار ترکی کی طرف تھا اور اس معاملے میں یونانی حکام مداخلت نہیں کر سکتے تھے۔
مزید کئی ہفتوں کے بعد آخرکار ان کی کہانی اختتام کو پہنچی۔ اس گروہ کو یونانی پولیس بچا کر ایک پناہ گاہ میں لے گئی۔ مہاجرت کے یونانیوزیر نوٹس میتاراچی نے اس وقت پریس کو بتایا کہ تمام لوگ خیریت سے ہیں اور لڑکی کی موت پر افسوس کا اظہار کیا۔ تاہم لڑکی کی موت سےمتعلق شکوک وشبہات یونانی میڈیا میں گردش کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ اس بچی کا کبھی وجود ہی نہیں تھا۔
کسی دوسرے کیس سے کوئی مماثلت نہیں ہے
ان واقعات کو نہ صرف ڈیئر اشپیگل نے رپورٹ کیا بلکہ اسے دیگر بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس اور یونانی میڈیا نے بھی اٹھایا۔کچھ جرمن زرائع ابلاغ نے ڈیئر اسپیگل کی رپورٹوں کو واپس لینے کے فیصلے کا موازنہ اشپیگل کے سابق رپورٹر کلاس ریلوٹیئس کے معاملے سے کیا۔ 2018ء میں اس رپورٹر نے اعتراف کیا تھا کہ اس کی زیادہ تر رپورٹنگ جھوٹ پر مبنی اور من گھڑت تھی۔ اس واقعہ کو 'اشپیگل گیٹ ‘ کہا جاتا ہے اور اس سے میگزین کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
تاہم ایوروس پر میگزین کی رپورٹنگ صرف فکشن نہیں۔ لیکن یہاں جرمنی میں میڈیا کے کچھ حصوں میں اسے نظر انداز کر دیا گیا ۔
والدین کی طرف سے قبر کشائی کا مطالبہ
لڑکی کے والدین آج تک اس بات پر قائم ہیں کہ انہیں اپنی بیٹی کو جزیرے پر دفن کرنا پڑا اور انہوں نے اپنی بیٹی کی لاش نکالنے کے لیے قبر کشائی کا مطالبہ بھی کیا۔ آزاد محققین نے یونانی حکومت کے اس دعوے کی بھی تردید کی کہ یہ جزیرہ ترکی کا ہے۔تحقیقاتسے ثابت ہوا کہ یونانی ریاست کی سرحد جزیرے کے ساتھ چلتی ہے اور جزیرے کا بڑا حصہ یونان کا ہے۔ ایتھنز نے اس کی تردید نہیں کی ہے لیکن پھر بھی دعویٰ کیاکہ یونانی حکومت سے مدد مانگنے والے پناہ گزین اس جزیرے کے ترکی والے حصے میں تھے اور اس طرح انہیں بچایا نہیں جا سکتا تھا۔
آزادانہ تصدیق مشکل
ایتھنز میں فرانسیسی روزنامے لی مونڈے کی نامہ نگار مارینا رافنبرگ بتاتی ہیں،''یونانی حکام نہ صرف پناہ گزینوں کے خلاف بلکہ ان کی مدد کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور اس مسئلے پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کر رہے ہیں۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ یونان میں صحافیوں کے لیے کام مشکل ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر دریائے ایوروس کے علاقے میں جہاں آزادانہ رپورٹنگ مشکل سے ممکن ہےکیونکہ یہ سرحد ایک محدود فوجی علاقہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق دریائے ایوروس کے علاقے میں تحفظ کے متلاشی افراد کو یونان میں داخل ہونے سے روکنا ایک عام رواج بن گیا ہے جو کہ قومی اور بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یونانی حکام یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ وہ ہجرت کے قانون پر عمل کر رہے ہیں لیکن وہ آزاد تنظیموں کو صورت حال پر نظر رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔
دریائے ایوروس کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران ترکی اور یونان کے درمیان دنوں اور ہفتوں تک پھنسے ہوئے لوگوں کے مرنے کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ لیکن یونانی میڈیا میں شاید ہی اس کی کوئی کوریج ہو۔
اس بارے میں کچھ بھی یقینی نہیں کہ ڈیئر اشپیگل نے دریائے ایوروس کے واقعے پر چاروں مضامین کیوں واپس لے لیے اور چھوٹی بچی کے معاملے میں زیر التواء پیش رفت کا محض حوالہ کیوں نہیں دیا۔
ابھی تک یونانی حکام نے اس بات کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہےکہ لڑکی کی موت نہیں ہوئی یا اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس بارے میں صرف ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑکی کے والدین اس بات پر قائم ہیں کہ ان کی بیٹی کی موت دریائے ایوروس کے جزیرے پر ہوئی تھی۔ ایک اور بات بھی یقینی ہےکہ والدین اپنے دوسرے بچوں اور باقی گروپ کے ساتھ ایسے جزیرے پر ہفتوں تک پھنسے ہوئے تھے اور انہیں بچایا نہیں گیا۔
تاہم اگر یونانی حکومت اس واقعے کی کسی بھی بین الاقوامی آزادانہ تحقیقات کو روکتی رہتی ہے تو بہت سے سوالات کے حتمی جوابات نہ ملنے کا امکان ہے۔
ش ر⁄ ک م (فلوریان شمٹز)