تو ملک کا انتظام اقرار الحسن ہی کو کیوں نہیں سونپ دیتے؟
9 دسمبر 2020کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وسطی حصے کے ایک چھوٹے سے شہر پیر محل کے ایک اسکول کے اوقات کار کے دوران جب وہاں کلاسز جاری ہوتی ہیں، اقرار الحسن اپنی کیمرہ ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں اور ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچ کر ایک استاد کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ انہیں ایک کلاس روم کے پاس لے جایا جاتا ہے جہاں وہ استاد صاحب کلاس میں موجود ہیں اور وہ بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ یہی استاد ہی کراچی سے خاص طور پر وہاں گئے ہوئے اقرارالحسن اینڈ ٹیم کے مطلوبہ فرد ہیں جن سے طلبہ، اسکول اسٹاف اور کیمروں کے سامنے اقرار الحسن سوال و جواب شروع کر دیتے ہیں۔ اقرار الحسن کی طرف سے بیان کردہ تفصیلات کے مطابق نسبتاﹰ جوان نظر آنے والے وہ استاد صاحب مذکورہ اسکول کے ہی ایک کمرے میں کم عمر طالبات کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتیں کرتے تھے۔ ان کی ان حرکتوں کے بارے میں اطلاع یا شکایت ملنے کے بعد اقرار الحسن کے پروگرام کی ٹیم کی طرف سے اس کمرے میں ایک خفیہ کیمرا لگایا گیا اور ان استاد صاحب اور ان کے ایک ساتھی کی حرکتوں کو ریکارڈ کر لیا گیا۔ اور پھر اقرار الحسن جو پیر محل سے کم و بیش ایک ہزار کلومیٹر دور سے کراچی میں رہتے ہیں، وہاں آ کر ان استاد صاحب اور ان کے ساتھی کی ان حرکات کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ان استاد صاحب اور ان کے ساتھی کی ان کارروائیوں سے نہ تو دو کمروں کے فاصلے پر اپنے دفتر میں موجود اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب آگاہ ہوتے ہیں، نا علاقائی تعلیمی حکام اور نا ہی مقامی پولیس۔ کیمرے کے سامنے اقرار جرم کے بعد ان استاد صاحب کو ان پولیس اہلکاروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جنہیں اقرار الحسن اپنے ساتھ ہی لائے ہوتے ہیں۔
کشمور واقعہ: یہ بھی تو کوئی پوچھے کہ ’ٹرکایا‘ کیوں؟
کرتار پور، بابری مسجد اور افضل گرو
پاکستان میں لوگ ٹیکس نیٹ میں آخر کیوں نہیں آنا چاہتے؟
ایک اور ویڈیو میں پنجاب کے ہی ایک علاقے میں ایک ایسے جعلی صحافی کا پردہ چاک کرتے دکھایا گیا ہے جو خفیہ کیمرے لگا کر لڑکوں کی قابل اعتراض ویڈیو ریکارڈ کر کے انہیں اور ان کے خاندان کو بلیک میل کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک لڑکے کی ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے وہ شخص متاثرہ لڑکے کے خاندان سے نوے ہزار روپے اور ایک موٹر سائیکل کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس جعلی صحافی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کی ساری گفتگو ایک خفیہ کیمرے سے ریکارڈ کر لی جاتی ہے اور پھر اقرار الحسن اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچ کر اس شخص اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ لیتے ہیں۔ یہ تمام افراد کیمرے کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر انہیں اقرار الحسن کے ساتھ ہی آئی ہوئی مقامی پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
اقرار الحسن کے ہر پروگرام میں ایسے ہی کسی نا کسی معاملے کو منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک پروگرام سندھ لیبارٹری کراچی میں اقرار الحسن اور ان کی ٹیم کے چھاپے پر مبنی ہے جو دو ستمبر 2018ء میں ریکارڈ اور نشر کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر موجود اس کی ویڈیو میں کروڑوں روپوں کے سالانہ اخراجات سے چلنے والی اور عدالتی فیصلوں میں انتہائی اہم فورینزک نتائج جاری کرنے والی اس سرکاری لیبارٹری کی ناگفتہ بہ حالت دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح انتہائی حساس نوعیت کے ٹیسٹ رپورٹس بغیر ضروری ساز وسامان کے وہاں تیار ہو رہی تھیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما شرجیل میمن کے ہسپتال کے کمرے سے ملنے والی شراب کی بوتلوں سے متعلق بھی تھی۔ یہ بوتلیں اس وقت کی چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے ان کے کمرے سے پکڑی تھیں۔ اس معاملے کا میڈیا پر بہت زیادہ چرچا ہوا۔ لیکن بعد میں سندھ لیبارٹری کی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ ان بوتلوں میں تو شہد اور زیتون کا تیل تھا اور ظاہر ہے شرجیل میمن کو اس سے فائدہ ہوا۔ اقرارالحسن اسی رپورٹ کے اجرا کے اگلے ہی دن سندھ لیبارٹری پر 'چھاپہ‘ مارتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تو وہ ٹیسٹ کرنے والے آلات ہی نہیں ہیں جن کی بنا پر وہ رپورٹ تیار کی گئی تھی۔ ذرا غور کریں کہ وہ بوتلیں کسی عام آدمی یا پولیس کے سپاہی نے نہیں برآمد کی تھیں بلکہ انہیں پکڑنے والا ملک کا اعلیٰ ترین منصف یعنی چیف جسٹس آف پاکستان تھا جس کا کام پورے ملک میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اگر ان کی طرف سے برآمد کردہ شراب بھی شہد قرار پا سکتی ہے تو پھر عام انسان کے ساتھ اس طرح کے ادارے اور لیبارٹریاں کیا کر رہی ہوں گی۔
سلام ہے اقرار الحسن کو کہ وہ اپنے ذرائع اور خفیہ طور پر کام کرنے والے ذرائع کے ذریعے ملک بھر میں پھیلے ہوئے 'گھناؤنے جرائم‘ کا پردہ چاک کر رہے ہیں بلکہ ان کے ذمہ داران کے چہرے اپنے کیمرے کے ذریعے پورے ملک کے سامنے آشکار کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پروگرام میں ہر ہفتے ہی ایسے کسی معاملے کو سامنے لایا جاتا ہے۔
میری یہ تحریر اقرار الحسن یا ٹیم سرعام کی ان کارروائیوں کی ہرگز تائید نہیں ہے اور یہ 'انویسٹیگیٹیو جرنلزم‘ صحافت کے معیار پر پورا اترتی ہے یا نہیں یا پھر قانونی طور پر کسی عام شخص کی رسائی کہاں تک ہو سکتی ہے اور کہاں پر پرائیویسی اور بنیادی حقوق کی حد شروع ہوتی ہے، یہ بالکل الگ موضوع ہے جس پر شاید کسی اور بلاگ میں بات ہو گی۔ میرا یہاں سوال یہ ہے کہ متاثرہ لوگ نا تو پولیس سے رابطہ کرتے ہیں، نا عدالت سے اور نا ہی متعلقہ دیگر اداروں سے بلکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اگر ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ اقرار الحسن ہی ہے۔ اگر حالت یہ ہے تو پھر ملک کی پولیس، خفیہ ایجنسیاں، تفتیشی ادارے، اداروں کے معاملات چلانے والے درجہ بدرجہ افسران اور عہدے کس لیے قائم ہیں۔ کراچی میں بیٹھے ہوئے کسی حکومتی اور خفیہ ادارے کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی ناک کے نیچے سندھ لیبارٹری میں کیا کچھ ہو رہا ہے؟ تو پھر ختم کریں یہ سارے ادارے اور گھر بھیجیں ان کے چلانے والوں کو اور یہ سب کچھ اقرار الحسن کے حوالے کر دیں۔