جرمن فاؤنڈیشن کی طرف سے پاکستانی صحافی کو انسانی حقوق کا ایوارڈ
26 اکتوبر 2012بین لاقوامی صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ممالک میں سر فہرست ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک قبائلی علاقہ جات کو سمجھا جاتاہے۔ گزشتہ ایک دہائی سےدہشت گردی کے خلاف بین القوامی جنگ میں اہمیت کےسبب یہ علاقہ بین لاقوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن یہاں سے معلومات کی فراہمی اور خبروں کا حصول جان جوکھوں کا کام ہے۔ اسی سبب جرمنی کی معروف سیاسی فاؤنڈیشن فریڈرش ایبرٹ اشٹفٹنگ(ایف ای ایس) کا سالانہ انسانی حقوق کا ایوارڈ اس مرتبہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس (ٹی یوجے) کے حصے میں آیا ہے۔
ٹی یو جے کے صدرصفدر داوڑ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی نظیم کو یہ ایوارڈ دیے جانے پر بہت خوش ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی انٹر ویو میں صفدر داوڑ کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ٹی یو جے کی خدمات کو بین لاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس سالوں میں فرائض کی انجام دہی کے دوران پاکستان میں بیالیس صحافی شہید ہوئے جن میں سے بارہ کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہے۔
صفدر داوڑ کا کہنا تھا کہ آئے دن نہ صرف قبائلی صحافیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ زرائع ابلاغ پر لگی قد غن بھی جوں کی توں ہے۔ انہوں نے کہا کہ''پاکستانی آئین اور قانون کے تحت قبائلی علاقوں میں زرائع ابلاغ کو آزادی حاصل نہیں۔ فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت نہ ہم اخبار شائع کرسکتے ہیں نہ ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت ہے۔ نہ ہمیں کوئی میگزین وغیرہ شا ئع کرنے کی اجازت ہے۔ یعنی قبائلی علاقون میں میڈیا کی آواز ابھی تک بندشوں کا شکار ہے‘‘۔
ایف ای ایس پاکستان سے منسلک پروگرام آفیسر قراۃ العین زمان کا کہنا ہے کہ ٹی یوجے کو ہیومن را ئٹس ایوارڈ دینے کا مقصد پاکستان کے قبا ئلی علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کی انسانی حقوق کے لئےخدمات کا اعتراف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہیومن رائٹس ایوارڈ دینے کی یہ تقریب اکتیس اکتوبر کو جرمن دارلحکومت برلن میں منعقد ہوگی۔ ٹی یو جے کے صدرصفدر داوڑ اس تقریب میں شریک ہو کر یہ ایوارڈ وصول کریں گے۔ قراۃ العین نے بتایا ''پاکستان کے ساتھ ساتھ وہاں پر جو جرمن صحافی ہیں ان کیستاھ اس موضوع پر بات چیت کریں گے۔ دیکھیں گے کہ پاکستان میں کیا حالات ہیں اور خصوصا فاٹا میں صحافت کا کیا حال ہے۔ کس طرح ایک مقامی صحافی کا استحصال کیا جاتاہے۔ خبریں تو یہی صحافی نکال کر لاتے ہیں۔ یہ ایک گمنام ہیرو کی طرح ہیں اور ہم ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں‘‘
صفدر داوڑ کا کہنا تھا کہ قبائلی صحافیوں کو کام کے دوران طالبان شدت پسندوں ،سکیورٹی فورسز اور مقامی پولیٹیکل انتظامیہ کی طرف سے شدید دباؤکا سامنا رہتاہے ۔ انہوں نے بتا یا کہ مختلف فریقین کی جانب سے دھمکیوں کے باعث بعض صحافی دوسرے علاقوں میں نقل مکانی بھی کر گئے ہیں۔ داوڑ کے مطابق مشکلات کے باوجود ایف ای ایس کی طرز پرمقامی اور بین الاقوامی سطح کی مزیدحوصلہ افزا سر گرمیوں کے ذریع قبائلی علاقے میں صحافت کو زندہ رکھا جا سکتاہے۔
رپورٹ: شکور رحیم
ادارت: کشور مصطفیٰ