’خواتین سرعام اونچا نہ ہنسیں‘: ترک نائب وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ
5 اگست 2014یہ مقدمہ ترکی میں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکنوں اور چند خواتین ارکان پارلیمان کی طرف سے درج کرایا گیا ہے۔ ترک پارلیمان کی ایک خاتون رکن آئیلِن نازلِیاکا کے مطابق نائب وزیر اعظم آرِنچ کے خلاف یہ مقدمہ ایک قانونی درخواست کی صورت میں استنبول کی ایک عدالت میں درج کرایا گیا۔
درخواست میں حقوق نسواں کے لیے فعال متعدد کارکنان اور ملکی پارلیمان کی کئی منتخب ارکان نے الزام لگایا ہے کہ نائب وزیر اعظم جنسی بنیادوں پر امتیازی سلوک کے چارٹر کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
درخواست دہندہ خواتین کے بقول بلند آرِنچ نے عوامی جگہوں پر خواتین کو قہقہے لگانے سے باز رہنے کا جو مشورہ دیا ہے، اس کے بعد سرعام اونچا ہنسنے والی خواتین کو ممکنہ طور پر پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
عدالتی درخواست کے دائر کیے جانے کے بعد بہت کم حلقوں کو امید ہے کہ اس کے نتیجے میں نائب وزیر اعظم کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی دیکھنے میں آئے گی۔ تاہم درخواست گزار ترک خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے رکن پارلیمان آئیلِن نازلِیاکا نے کہا کہ پیر چار اگست کو دائر کردہ مقدمے کا مقصد متعلقہ سیاستدان پر یہ واضح کرنا ہے کہ ان کے خواتین سے متعلق امتیازی بیانات قابل قبول نہیں ہیں۔
بلند آرِنچ کا تعلق وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی قدامت پسند جماعت AKP سے ہے۔ وہ ایردوآن کے قریبی ساتھی اور اسلامی سوچ کی حامل موجودہ حکمران جماعت کے بانی ارکان میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں کہا تھا کہ خواتین کو پبلک میں اونچا ہنسنے، خاص طور پر قہقہے لگا کر ہنسنے سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنی شرم و حیا کی حفاظت کرنی چاہیے۔
اس تقریر میں آرِنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ خواتین کو باحیا ہونا چاہیے اور یہی خاصیت مردوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ ان کے بقول پبلک مقامات پر بلند آواز میں نہ ہنسنا بھی ان تقاضوں میں شامل ہے، جو کسی معزز خاتون کو پورے کرنے چاہییں۔
ان بیانات کے بعد بہت سی ترک خواتین نے آرِنچ کے خلاف سوشل میڈیا پر بھرپور احتجاج شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام جیسی ویب سائٹس پر اپنی ایسی تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں، جن میں انہیں ہنستے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
اس احتجاج کے باوجود نائب وزیر اعظم آرِنچ نے بعد ازاں بھی یہ کہا تھا کہ وہ اپنے کہے پر قائم ہیں، ترک عوام زیادہ تر اسی سوچ کے حامل ہیں اور ان کا بیان عمومی شرافت سے متعلق تھا، نہ کہ کسی ایک جنس کے خلاف۔