زبانِ وقت، اس کے اثرات اور تقاضے
10 مارچ 2021جدید ہندوستان میں باضابطہ 23 زبانیں اور تقریبا 1000 علاقائی بولیاں ہیں۔ یہاں تک کہ ریاستوں کی سرحدیں بھی زبانوں کے علاقوں کے حساب سے طے کی گئی ہیں۔ تو ایسے میں ایک زبانِ رابطہ عام یعنی لنگوا فرینکا کا انتخاب کیسے ہو؟ کیا زبانِ ہند کے تاریخی صفحات پر نظر ڈالی جائے یا مردم شماری پر؟ یا پھر سیاسی مصلحت کو خاطر میں رکھ کر فیصلے لیے جائیں۔چلیے اس سلسلے کے کچھ مرحلوں پر کچھ دیر ٹھہرتے ہیں، اپنی زبان کے سفر کو تھوڑا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج سے تقریبا 2500 برس قبل گوتم بودھ کو عرفان حاصل ہوا اور وہ اپنے انقلابی خیالات لوگوں تک پہنچانے کے لیے نکل پڑے۔ سارناتھ میں پہلا خطاب کیا، جو برہمنوں کی زبانِ خاص ’’سنسکرت‘‘ میں نہیں بلکہ اس زمانے کی عام زبان ''پالی‘‘میں تھا۔ شاید اپنی بات کی تبلیغ اور تشہیر کے لیے زبان کا عام فہم ہونا لازمی ہوتا ہے۔
12ویں اور 13ویں صدی سے مغل دور تک مغربی ایشیا سے آنے والے سلاطین، لشکر، تاجر اور صوفی شمالی ہند پہنچ رہے تھے۔ ان کے پہناوے، کھانا، موسیقی اور زبان سب الگ تھا، لیکن مقامی لوگوں کے ساتھ رابطہ تو قائم کرنا ہی تھا، تو یہاں کے سرائے، جنگی خیمے، گلی کوچوں اور درگاہوں میں ایک نئی ملی جلی زبان کی تشکیل ہوئی۔
اس کے الفاظ میں عربی، فارسی، ترکی اور کھڑی بولی کی آمیزش خوب نظر آتی تھی۔ اسے ہم آج 'اردو‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ زبان ہماری مٹی میں پیدا ہوئی، یہیں پروان چڑھی۔ صدیوں کی ارتقا کے بعد اردو صحیح معنی میں ایک ’لنگوا فرینکا‘یعنی رابطہ عام کی زبان بن کے ابھری، جس کا علاقہ پورا برصغیر تھا۔ دکن میں اسے سب سے پہلے سرکاری زبان کا درجہ بھی ملا۔
انگریز جب ہندوستان آئے تو انہیں بھی ایک ایسی واحد زبان کی جستجو ہوئی، جس کے وسیلے سے اس خطے میں کہیں بھی گفتگو اور کاروبار کیا جا سکے۔ انگریز ادیب جان بوتھویک گلکرسٹ نے باقاعدہ ملکی سطح پر سروے کیا اور پھر پایا کہ ایسی صرف ایک زبان تھی 'اردو‘، بعد ازاں آہستہ آہستہ سرکاری کام کاج کے لیے فارسی کی جگہ انگریزی اور اردو نے لے لی۔
لیکن یہ زبان جلد ہی انگریزوں کے استعماری منصوبوں کی زد میں آ گئی۔ 19ویں صدی میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج میں کارروائی ہوئی، زبان کو اور اس کے ذریعہ قوم کو بانٹنے کی۔ ارادہ وہی تھا۔ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو یعنی'ڈیوائڈ اینڈ رول‘۔
اب اردو کو مسلمانوں کی اور ہندی کو ہندوؤں کی زبان قرار دیا جانے لگا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اپنے تمام تر انجام کے ساتھ۔شاید حاکمِ وقت کو یہ اتنا ہی موافق لگتا ہے جتنا انگریزوں کے لیے رہا ہوگا۔
جنگِ آزادی کے دوران قومی یکجہتی اور رابطہ عام کے لیے ہندوستانی زبان جو ناگری اور نستعلیق دونوں میں لکھی جا سکتی تھی، اسے خوب فروغ ملا۔ لیکن پھر تقسیمِ ہند کے المیے کا غصہ، اس دور میں رائج زبان اردو کے خلاف پھوٹ پڑا۔ اور یہ تقسیم 1947ء میں رک نہیں جاتی۔ آزاد ہند میں رابطے کی زبان کی کھوج اور اس سے جڑی سیاست ایک نیا رخ اختیار کرتی ہے۔
کیوں کہ اردو پاکستان کی زبان ہوگئی تھی تو آزاد ہند کے آئین میں دیوناگری میں لکھی ہوئی ہندی کو سینٹرل گورنمنٹ کی سرکاری زبان کا درجہ ملا۔ ریاستوں میں علاقائی زبانوں کو سرکاری زبان تسلیم کیا گیا اور انہیں بعد میں جدید ہندوستانی زبان کا درجہ ملا۔ 15 برس تک انگریزی میں سرکاری کام کاج کرنے کی اجازت ملی جس سے 1963 ء میں ایک ترمیم کے ذریعہ آگے بڑھا دیا گیا۔
بات 70 سے 80 کی دہائی کی ہے، ایمرجنسی اور اس کے بعد کا وقفہ۔ دہلی کی گلیوں کے رنگ بدل رہے تھے۔ اردو میں لکھی، شاعری سے لبریز رنگ برنگے سائن بورڈ ایک تغلقی سرکاری فرمان کے سبب اب دیوناگری اور انگریزی میں نظر آنے لگے تھے اور وہ بھی سفید پس منظر پر، صرف لال، پیلے اور نیلے رنگ میں۔ اردو اور نستعلیق غائب ہونے لگی تھی اور اس سے وابستہ خطاطی جیسا فن بھی۔ میرے والدِ عزیز بھی عربی، فارسی سے بخوبی آشنا تھے اور اردو میں تو کمال کی مہارت رکھتے تھے، اس کے ساتھ ہی وہ انگریزی اور اردو میں خطاطی بھی کرتے تھے، اب ہم بچوں سے دیو ناگری سیکھنے پر مجبور تھے۔
تاہم، پہلے ہی کی طرح کچھ آج بھی اردو اور ہندی کو مذہبی جامہ پہنایا جا رہا ہے اور اکثریت جیت رہی ہے۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان کہا جاتا ہے لیکن کتنے ہی ہندوستانی مسلمان اور محبانِ اردو نستعلیق سے بیزار ہیں۔ میر و غالب کو رومن اور ناگری میں پڑھتے ہیں۔ اردو کو سیکولر نظریات سے جوڑا جاتا ہے جو آج کل رائج نہیں ہیں۔ اس زبان کی نزاکت و نفاست اور اس سے جڑی مشترکہ تہذیب حاشیہ پر نظر آتے ہیں۔
لنگوا فرینکا کے طور پر ہندی کو غیر ہندی دانوں پر تھوپنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی مگر اس کا اثر سود مند نہیں رہا۔ خاص طور پر دکن میں ہنگامہ ہوگیا۔ یہ سچ ہے کہ انگریزوں نے'پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کے تحت راج کیا لیکن اس ستم ظریفی کا کیا کیجیے کہ ان کی زبان ہی الگ الگ زبان بولنے والے ہندوستانیوں کو جوڑ کے رکھے ہوئے ہے اور مقامی زبانیں کو دلوں میں دوری پیدا کرنے کا ذریعہ گردان رہی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اتنی مادری زبانوں سے سجے ملک میں رابطہ عامہ کی گتھی سلجھانا آسان نہیں۔ اس پر زبانوں، خاص طور پر اردو کو لے کے سیاسی پیچ وخم مشترکہ قدروں کے زوال کی وجہ بن ہی جاتے ہیں۔ تہذیب اور تاریخ کو سمجھنےکے نظریات تنگ ہونے لگتے ہیں، قومی اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے، دلوں کا بٹوارہ فساد اور دنگے کی شکل تک اختیار کرنے لگتا ہے۔
آخر ایک عام زبان کی ضرورت کیوں ہے۔ کیا صرف رابطے قائم کرنے کے لیے؟ آج کی عالمی منڈی یعنی 'گلوبل مارکیٹ‘ کو دیکھیں تو شاید اشتہارات اور سامان بیچنے کی سہولت کے لیے۔ ہم سب میکالے کی اولادیں شاید اس کام کے لیے پشت در پشت تربیت یافتہ ہیں۔ معاشرہ اگر یکسو، مونوکرومیٹک ہو، انگریزی بولنے والا ہو تو انسٹاگرام اور سوشل میڈیا کے دور میں عالمی رجحان اور خیالات لوگوں تک جلدی پہنچتے ہیں اور ہم بہ آسانی 'لائیک اینڈ شئیر‘ کر پاتے ہیں۔ آن لائن شاپنگ کر پاتے ہیں۔
کوئی بھی زبان ''لنگوا فرینکا‘‘ تبھی کہلاتی ہیں جب اس میں دیگر زبانوں سے اضافے ہوتے رہیں۔ لیکن اس کا اثر ہماری آبائی تہذیب پر کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہم کبھی سوچتے ہیں؟ زبانیں تہذیب کی علمبردار ہوتی ہیں۔ الفاظ میں تاریخ نہاں ہوتی ہے، زبان ختم ہوتی ہے، تو تہذیب ختم ہوتی ہے، ہماری قدریں اور جڑیں سوکھ جاتی ہیں۔
اگر آپ غور فرمائیں تو صدیوں کے سلسلوں اور رابطوں کی کہانی ہماری زبان میں، الفاظ میں نظر آتی ہیں۔ کتنے ہی الفاظ ہم اکیلے بول ہی نہیں پاتے جیسے ''دھن دولت‘‘ ،''مرہم پٹی‘‘ ،''دین دھرم‘‘،''رام رحیم‘‘ وغیرہ۔ ان میں ایک لفظ ہندی یا سنسکرت کا ہے تو دوسرا عربی یا فارسی کا۔ یہ ہماری مشترکہ تہذیب کاآئینہ دار ہیں۔
مانا کہ زبانیں گزرتے وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں، دیگر زبانوں کے الفاظ اپناتی ہیں، وسیع ہوتی ہیں لیکن کیا اپنی تہذیبی قدروں سے دور ہو جانا درست اور موزوں ہے۔ کیا یہ ٹھیک ہے کہ زبان کے نام پر سیاست اس قدر بڑھ جائے کہ معاشرہ ہی بٹ جائے، دل کا دل سے رابطہ ہو ہی نہ سکے۔ ایک قدیم اور خوبصورت تہذیب گلوبل کلچر کے تلے دب جائے۔ میں اس اوجھل ہو رہی دلربا زبان میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ اس کی نفاست کو پھر سے محسوس کرنا چاہتی ہوں، اس کے ماضی سے جڑنا چاہتی ہوں، اس کے مستقبل کو تراشنا چاہتی ہوں۔ حالاتِ حاضرہ میں یہ خطرہ جان ہی سہی، پر کیا کیجے!
زباں تسلسلِ تاریخِ زندگانی ہے
زبان منازل تہذیب کی کہانی ہے
#
(Lingua franca) یعنی مختلف زبانوں کی ایک زبان/ متعدد زبانوں کی کھچڑی