سکیورٹی چیک پوائنٹس پر پولیو ویکسینیشن کی سہولت
15 اپریل 2014حکام نے اس بات کا اعلان پیر کو پولیو کے خلاف تین روزہ مہم کے آغاز پر صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں ایک تقریب کے موقع پر کیا۔ اس مہم کا مقصد طالبان کے مضبوط گڑھ تصور کیے جانے والے شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا ہے۔
طالبان سے وابستہ دو شدت پسند گروہوں نے 2012ء میں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پولیو مہم کی آڑ میں جاسوسی کی جاتی ہے۔ انہوں نے امریکی ڈرون حملوں کو بھی اس پابندی کی وجہ قرار دیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو پشاور میں ایک تقریب میں قبائلی علاقے کے ایک اعلیٰ انتظامی اہلکار فرخ سائر خان نے بتایا کہ نئی حکمتِ عملی کے تحت ان علاقوں کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے جہاں قطرے پلانے والے طبی کارکنوں کی رسائی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: ’’شمالی وزیرستان پولیو کے وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور بدقسمتی سے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہم وہاں بچوں کو قطرے نہیں پلا سکے لیکن ہم اس صورتِ حال پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
حکام بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں وائرس کے اس پھیلاؤ کی وجہ شدت پسندوں کی دھمکیاں اور قطرے پلانے والے طبی کارکنوں پر ہونے والے حملے ہیں۔ اس علاقے میں وائرس کی موجودگی سے پاکستان کے دیگر علاقوں میں اس کی منتقلی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا چکا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق شمالی وزیرستان پاکستانی طالبان اور حقانی نیٹ ورک سمیت ملک کے انتہائی سنگدل اور ڈراؤنے شدت پسندوں کا گڑھ ہے۔ اس علاقے میں غیر مقامی لوگوں کو نشانہ بنانے کا خطرہ رہتا ہے جبکہ وہاں مقامی گروہوں میں لڑائی بھی ہوتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے اس علاقے تک رسائی مشکل ہے۔
یونیسیف کی ایک اہلکار شاداب یونس کا کہنا ہے: ’’ہم سکیورٹی فورسز کی چیک پوائنٹس کے ساتھ پچاس سے زائد مقامات پر ویکسینیشن کی سہولت فراہم کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’سکیورٹی چیک پوائنٹس کے قریب یہ سہولتیں فراہم کرنے سے حملوں کا خطرہ کم ہو جائے گا۔‘‘
خیال رہے کہ پاکستان کا شمار ایسے تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پولیو کے مرض کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ وہاں 2011ء میں 198بچوں میں اس مرض کا وائرس پایا گیا تھا جو کسی بھی ملک سے زیادہ تھا۔ تاہم 2012ء میں اقوام متحدہ کی معاونت سے چلائے گئے ویکسینیشن کے ایک پروگرام کی بدولت یہ تعداد کم ہو کر 58 رہ گئی تھی۔