شام میں عام معافی کے اعلان کے باوجود پرتشدد واقعات جاری
17 اپریل 2013منگل کے روز شام کے صدر بشار الاسد نے عام معافی کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے باوجود شام میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ شامی صدر کی عام معافی کے دائرے میں ملک میں دہشت گردی سے متعلق قانون کی صرف ایک شق کے لوگ شمار کیے گئے ہیں۔ اس شق کے مطابق عام معافی کا اطلاق ان افراد پر ہو گا جنہوں نے باغیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں حکومت کو معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ عام معافی میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے شامل نہیں ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اسد کی عام معافی کا اعلان بظاہر ایک مذاق محسوس ہوتا ہے۔ بشار الاسد نے عام معافی کا اعلان شام کے قومی دن پر کیا۔
شامی صدر نے سرکاری فوج کے ان منحرفین کو بھی معاف لرنے کا اعلان کیا، جنہوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لی ہیں۔ اعلان کے مطابق منحرفین کو اپنے ہتھیار پھینک کر فوج کو رپورٹ کرنا ہو گا۔ شام کے اندر رہنے والے منحرف فوجیوں کو تیس دن کی مہلت دی گئی ہے جب کہ اس عام معافی کو حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک مقیم بھگوڑے فوجیوں کو نوے دن دیے گئے ہیں۔ اُن بھگوڑے فوجیوں کو بھی عام معافی نہیں حاصل ہو گی جو حکومتی اسلحہ لوٹ کر فرار ہو چکے ہیں۔ سرکاری نیوز ایجنسی سانا (SANA) کے مطابق جیلوں میں موت کی سزا کے منتظر افراد کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کر دی جائیں گی۔ مسلح سویلن بھی تیس دن کے اندر اندر ہتھیار پھینک کر اسد حکومت کے اعلان سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
عام معافی کے اعلان کے حوالے سے اسد حکومت کے وزیر انصاف نجم الاحمد کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے شام کے اندر سماجی مصالحتی عمل کو بھرپور تقویت حاصل ہو گی۔ نجم الاحمد کے مطابق عام معافی سے ملک کے اندر یگانگت اور قومی اتفاق پیدا ہوگا، وہاں مختلف نسلوں اور فرقوں کی عوام کو ایک ساتھ مل جُل کر رہنے میں راحت ملے گی۔ اُدھر برطانوی اخبار گارجیئن کو اپنے ایک انٹرویو میں شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد کا کہنا ہے کہ اگر بشار الاسد اقتدار چھوڑ دیتے ہیں تو شام کا وجود ختم ہو جائے گا۔
لندن میں قائم سیرین آبزرویٹری فار ہیومین رائٹس نامی تنظیم کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے عام معافی کے اعلان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی بشارالاسد ایسی عام معافیوں کا اعلان کر چکے ہیں اور اس اعلان کے بعد بھی ہزاروں شامی قیدیوں کی رہائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ رامی عبدالرحمان کے مطابق ایک صحیح عام معافی اس وقت ہی ممکن ہے، جب تمام ضمیر کے قیدیوں کے علاوہ انقلابی رہائی پائیں گے۔
شام کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق عام معافی کے اعلان سے سات ہزار قیدی رہائی پائیں گے۔ منگل کے روز بھی شام میں وقوع پذیر ہونے والے پرتشدد واقعات میں 87 افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ شام میں اسد حکومت کی مخالف مسلح تحریک اب تیسرے سال میں داخل ہو گئی ہے اور اس میں ستر ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں کے علاوہ لاکھوں افراد مہاجرت اور بےگھری کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
(ah/ia(AFP