عراقی وزیراعظم نے امریکی دانشوروں کو بلوا لیا
19 مئی 2012عراق میں شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نوری المالکی پر اس حوالے سے خاصی تنقید کی جا رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی ان کی خواہش نے ملک میں آمرانہ طرز کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراقی وزیر اعظم نے جن امریکی دانشوروں کو بغداد آنے کی دعوت دی ہے ان میں بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے کینتھ پولاک، امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوشن کی ڈانیئیلا پلیٹکا اور انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے جوسٹ ہلٹرمین شامل ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق فوجی تجزیہ نگار کینتھ پولاک کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مالکی نے یہ ایک تعمیری اور دانشمندانہ قدم اٹھایا ہے۔
عراقی حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دعوت کا مقصد عراق سے متعلق حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کرنے کی کوششوں کا جواب دینا ہے۔ وزیر اعظم مالکی کے حامیوں کے خیال میں ان کے مخالفین حقائق کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم المالکی کے میڈیا ایڈوائزر علی الموسوی کے بقول عراق اور عراقی عوام کے خلاف ایسی جارحانہ سرگرمیاں جاری ہیں، جن کے تحت عراقی صورتحال کو منفی انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
عراق سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد امن عامہ کی صورتحال خراب ہوئی اور ملک ایک سیاسی انتشار جیسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ وزیر اعظم مالکی نے اپنے نائب طارق الہاشمی کے خلاف بدامنی کو ہوا دینے کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں۔ طارق ان دنوں ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن بھی عراقی وزیر اعظم پر سنی رہنماوں کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کر چکے ہیں۔
شمالی عراق میں کردوں کی نیم خود مختار حکومت کے بھی وزیر اعظم مالکی سے تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ امریکا میں بسنے والے کرد عراقی بھی وزیر اعظم مالکی کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم مالکی کے میڈیا ایڈوائزر الموسوی کا کہنا ہے کہ امریکی دانشوروں کو عراق آنے کی دعوت اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے صورتحال کا جائزہ لیں اور سیاسی نظریات رکھنے والوں کی باتوں میں نہ آئیں۔
عراقی وزیر اعظم کا دعوت نامہ پانے والی ڈانیئیلا پلیٹکا، جو 1992ء تا 2002ء سینٹ کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کی مشیر رہ چکی ہیں، کے خیال میں المالکی محض اپنے تشہیر ہی نہیں چاہتے۔ ’’مالکی نے اختیارات جمع کیے کیونکہ امریکا نے فوج واپس بلا لی تھی، فوج واپس نہیں بلائی جانی چاہیے تھی۔‘‘ ڈانیئیلا پلیٹکا کے بقول وہ عراق جا کر صورتحال کا از خود جائزہ لینے کی شدت سے منتظر ہیں۔
sks/hk (Reuters)