عسکری گروہوں کے خلاف مدد کی جائے، لیبیا کی اقوام متحدہ سے اپیل
14 اگست 2014بدھ کے روز لیبیا کی اسمبلی نے یہ عندیہ بھی دیا کہ ان ملیشیا گروہوں کو ملکی فوج میں ضم کیا جانا چاہیے، تاکہ ان کی آزادانہ عسکری کارروائیوں کو روکا جا سکے۔
رواں برس جولائی سے بن غازی شہر میں ماضی کے متعدد باغی گروپ اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والا گروہ انصار الشریعہ فوج کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ بدھ کے روز بن غازی شہر میں ان عسکریت پسندوں نے ملک کی اسپشل فورسز کے ایک کیمپ پر قبضہ کر لیا، تاہم قبضے کے لیے جاری جھڑپیں ختم ہونے کے بعد شہر میں قدرے سکون رہا۔ منگل کے روز اس شوری کونسل کے عسکریت پسندوں نے اس فوجی اڈے پر قبضے کے لیے بڑا حملہ کیا، جس میں فریقین کی جانب سے راکٹوں اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، تاہم عسکریت پسند اس اڈے پر قبضے میں کامیاب رہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس واقعے میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے۔
بدھ کے روز لیبیا کے قانون سازوں نے ملک کے مشرقی ساحلی شہر تبروک میں اپنی اس ملاقات کے دوران دو بڑے شہروں طرابلس اور بن غازی میں عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے تناظر میں عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل کی۔
بدھ کے روز اس حوالے سے پارلیمان میں پیش کی گئی اس قرارداد کے حق میں 124حاضر ارکان پارلیمان میں سے111 نے ووٹ دیا۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی گئی ہے کہ عام شہریوں کی حفاظت کے لیے لیبیا میں بیرونی مداخلت ضروری ہے۔ ’’بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر مداخلت کرنا چاہیے، تاکہ عام شہریوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔‘
واضح رہے کہ جون کی 25 تاریخ کو منتخب ہونے والی اس اسمبلی نے تاہم اپنی اس قرارداد میں یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ملک میں کس طرح کی بیرونی مداخلت کی خواہاں ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دارالحکومت طرابلس میں دو ملیشیا گروپوں کی باہمی لڑائی میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ منگل کے روز مسلح افراد نے طرابلس کے پولیس سربراہ کرنل محمد سوئیسی کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔ روئٹرز کے مطابق یہ ملیشیا گروہ اب اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں کہ ملکی فوج اور سکیورٹی ادارے ان کے سامنے مکمل طور پر بے بس دکھائی دیتے ہیں۔