فیس بک پربھارت کے زیرانتظام کشمیر کے حوالے سے پوسٹس ’ڈیلیٹ‘
22 جولائی 2016بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سخت کرفیو نافذ ہے اور گزشتہ 14 روز سے جاری بھارت مخالف مظاہروں اور جھڑپوں کے نتیجے میں 48 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
برطانیہ، امریکا، بھارت اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے فیس بک صارفین کی جانب سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا گیا ہے کہ ان کی جانب سے کشمیر میں ہونے والے تشدد کے حوالے سے پوسٹ کردہ تصاویر اور ویڈیوز کو فیس بک مستقل طور پر ڈیلیٹ کر رہا ہے۔ ان صارفین کا کہنا ہے کہ انہیں یہ پوسٹ ہٹائے جانے کے بعد فیس بک کی جانب سے پیغام موصول ہوتا ہے کہ ’آپ کی پوسٹ برادری کے معیارات اور ضوابط کے خلاف‘ تھی۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں آٹھ جولائی کو علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا، جو تاحال جاری ہیں۔
کیلی فورنیا بارکلے یونیورسٹی کی پروفیسر ہما ڈار کا، جن کا تعلق کشمیر سے ہے، کہنا ہے کہ ان کی جانب سے وانی کی تصاویر اور ان کی آخری رسومات میں ہزاروں افراد کی شرکت سے متعلق ایک ویڈیو کے پوسٹ کیے جانے کے بعد سے ان کی پروفائل یا ان کا صفحہ مستقل طور پر بند ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں فیس بک کی جانب سے پیغام موصول ہوا ہے، جس میں کہا گیا تھا، ’’ہم کسی بھی صورت اسے دوبارہ بحال نہیں کریں گے۔‘‘
لندن کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈیبیش آنند کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز کی سرگرمیوں اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال پر تنقید سے متعلق ان کی پوسٹس کو دو مرتبہ مٹایا گیا: ’’فیس بک نے معذرت کی مگر ایک ہی دن میں دوسری مرتبہ میری پروفائل بلاک کی گئی اور اس کی وجہ ایک تنقیدی پوسٹ بنی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’جب کشمیر میں بھارتی حکومت کے تشدد سے متعلق بہت سی پوسٹس ڈیلیٹ اور دانش وروں کی پروفائلز بلاک کی گئیں، تو اس سے واضح ہو گیا کہ فیس بک اس سلسلے میں سنسر شپ سے کام لے رہا ہے۔‘‘
امریکا میں مقیم سماجی کارکن میری سکلی نے فیس بک کے کمیونٹی معیارات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مٹائی جانے والی پوسٹس میں ایسی پوسٹس نہیں تھیں، جو فیس بک کے ضوابط پر پورا نہ اترتی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ایک سے زیادہ مرتبہ ان کی پوسٹس بھی ڈیلیٹ کی گئیں ہیں، حالاں کہ وہ نفرت انگیزی یا تشدد کو ہوا دینے کے زمرے میں نہیں آتی تھیں۔
اے ایف پی کے مطابق اس سلسلے میں فیس بک سے رائے جاننے کی کوشش کی گئی، تاہم اس انٹرنیٹ جائنٹ نے فوری طور پر ان خبروں پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔