1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبائلی علاقے میں ایک اور سینیئر صحافی کا قتل

Kishwar Mustafa28 فروری 2013

حال ہی میں قتل ہونیوالے صحافی ممتاز ملک کا تعلق شمالی وزیرستان کے علاقہ میران شاہ سے تھا انکے قتل کے خلاف ایک مرتبہ پھر صحافی سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکل آئے۔

https://p.dw.com/p/17nfa
تصویر: DW/dpa

پاکستان میں صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جنوری 2002 ء میں غیر ملکی صحافی ڈینیل پرل کو کراچی میں اغوا کرکے قتل کرنے کے بعد سے شروع ہوا تھا ۔ اب تک قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 14صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے حال ہی میں قتل ہونیوالے صحافی ممتاز ملک کا تعلق شمالی وزیرستان کے علاقہ میران شاہ سے تھا انکے قتل کے خلاف ایک مرتبہ پھر صحافی سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکل آئے۔

اس مرتبہ صحافیوں نے حکومت کی بجائے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لیکر ملک ممتاز سمیت قتل ہونیوالے 98 صحافیوں کے قاتلوں کو بے نقاب کریں جبکہ صحافیوں کے تحفظ کوہر صورت ممکن بنایا جائے ۔ احتجاج کرنے والے صحافیوں کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت صحافیوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور گزشتہ دو ماہ میں ملک بھر میں پانچ صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ مذید کو دھمکیاں بھی ملی ہیں ان کا کہنا تھا کہ صحافی معاشرے میں امن و امان کی سنگین صورتحال کے باوجود قلم کے ذریعے قوم و ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرکے حقائق کو سامنے لارہے ہیں لیکن بعض قوتیں زبردستی اپنا ایجنڈا صحافیوں کے ذریعے عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے رکن ذولفقار علی شاہ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ” اگر حکومت 2006 ء میں اغوا ءکے بعد قتل ہونیوالے صحافی حیات اللہ خان کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے لاتی اور اس کی روشنی میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزاء دیتی تو صحافیوں کے قتل کا سلسلہ یہاں تک نہ پہنچتا ۔“ پشاور کے علاوہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بھی آج ملک ممتاز کے قتل کے خلاف احتجاج کیا مومند ایجنسی پریس کلب کے صدرسعید بادشاہ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا ”بین الااقوامی اداروں اور صحافی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ قبائلی علاقوں کے صحافیوں کیلئے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کریں اور انہیں جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اور تربیت دیں انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی سکیورٹی سے بہتر ہے کہ صحافی کو رپورٹنگ کرتے وقت یہ اعتماد حاصل ہو کہ وہ محفوظ ہیں “

زیادہ سینیئر صحافی حکومت کی جانب سے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے اٹھائے جانیوالے اقدامات سے مطمئن نہیں خیبر یونین آف جرنلسٹ کے سابق صدر سید بخار شاہ کا کہنا تھا کہ” جسطرح پہلی حکومت صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی اسی طرح موجود حکومت بھی صحافیوں کیلئے کچھ نہ کرسکی اور اس دور میں بھی صحافی قتل ہوتے رہے انکا کہنا تھا کہ صحافیوں کے قتل کی نہ تو کوئی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی ہے اور نہ حکومت کسی کو گرفتار کرکے سزاء دے سکی لہٰذا حکومت سے اب یہ مطالبہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا“۔

Menschenrechtspreis der Friedrich Ebert Stiftung 2012
اب تک قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 14صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہےتصویر: TUJ

پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے صحافی ملک ممتاز کے قتل کی مذمت کی ہے تاہم حکومت سمیت کسی نے بھی اسکی انکوائری اور انکے قتل میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ذمہ داری نہیں لی ۔ دوسری جانب قبائلی علاقوں سمیت دارالحکومت پشاور کے بعض علاقوں میں بھی صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے کئی مرتبہ یہ بات حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کے نوٹس میں لانے کے باوجود اسکا کوئی حل سامنے نہ آسکا ۔ جبکہ پشاور سمیت صوبہ خیبر پختونخوا میں متعدد صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے سوات میں چند روز قبل دو صحافیوں پر نامعلو م افراد نے فائرنگ کی جس میں وہ بچ گئے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں اب تک قتل ہونیوالے صحافیوں کی تعداد 98 سے زیادہ ہوچکی ہی جس میں زیادہ تر کا تعلق قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا سے ہے اقوام متحدہ نے مکسیکو کے بعد پاکستان کو صحافیوں کیلئے خطرناک ملک قرار دیا ہے ۔

رپورٹ: فرید اللہ خان پشاور

ادارت: کشور مصطفیٰ