لعل شریف کا اسکول، اندھرے میں روشنی کی کرن
19 مئی 2015خیبر پختونخواہ کے ضلع ملاکنڈ کے صدر مقام بٹ خیلہ سے پینتالیس کلومیٹر کی مسافت پر پہاڑی علاقے آگرا نارنجئی کے باہمت لیکن ناخواندہ لعل شریف نے ستائیس اپریل 1992ء میں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو محسو س کرتے ہوئے اپنی خاندانی زمین پر بچوں کے لئے سکول بنوایا۔ لعل شریف نے اپنی پہاڑی زمین سے خود ہی سنگلاخ چٹانیں توڑ کر زمین کی سطح ہموار کی اور پھر درختوں کی شاخوں کو توڑ کر بچوں کے لئے چھت کا انتظام کیا۔ بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے لیے لوگوں کو ترغیب بھی دی اور ایک معلم کا بندوبست کیا۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے لعل شریف کا کہنا تھاکہ وہ خود بھی ناخواندہ ہے، ’’جب میں کسی دوسرے گاؤں جاتا اور وہاں پر بچوں کو اسکول جاتے دیکھتا تو شدت سے یہ محسوس ہوتا کہ ہمارے گاؤں میں بھی اسکول ہونا چاہیے۔ میں نے اپنے گھر کے قریب اپنی خاندانی زمین کو اسکول کے لئے وقف کیا، پہاڑ توڑ کر سطح ہموار بنائی اور درختوں سے چھت کا انتظام کیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسکول میں نرسری سے پرائمری تک بچوں کے لئے ایک ہی استاد ہے، جو بیک وقت تمام بچوں کو پڑھاتا ہے، ’’اسکول کو حکومت نے مکتب کا درجہ تو دے دیا ہے لیکن تئیس سال گزرنے کے باوجود بھی اسکول اپنی پرانی حالت میں ہے۔‘‘
لعل شریف کے دن کا آغاز اسکول کی صفائی سے ہوتا ہے جبکہ اس کی غیر موجودگی میں یہ کام ان کی ساٹھ سالہ اہلیہ لعل ذادگئی انجام دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لعل شریف تین کلو میٹر دور ندی سے اسکول کے بچوں کے لئے پانی لاتا ہے اور لعل شریف یہ کام بلا معاوضہ کرتے ہیں۔ لعل شریف کے مطابق گاؤں کے زیادہ تر افراد ناخواندہ ہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پر نہ تو کوئی خاتون ٹیچر ہے اور نہ ہی ڈاکٹر، ’’علاقے کی آبادی چھ ہزار نفوس پر مشتمل ہیں، یہاں کے لوگ تعلیم سے محبت کرتے ہیں اور یہاں کے طلباء و طالبات کئی کلو میٹر دور واقع مڈل اور ہائی سکول جاتے ہیں۔‘‘
نارنجئی اسکول کے طلباء و طالبات ایک ساتھ زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک کھلا میدان ہے اور درختوں کے شاخوں سے بنائی گئی ایک چھت، جب بارش ہوتی ہے تو اسکول سے بھی چھٹی ہو جاتی ہے۔ استاد تاجبر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسکول میں اس وقت سو سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ’’میں خود بھی کئی کلو میٹر دور سے روزانہ یہاں آتا ہوں۔ یہاں کے لوگ اور بچے تعلم سے محبت کرنے والے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اسکول کی عمارت بنوانے اور دیگر سہولیات فراہم کرنے میں کردار ادا کرے۔‘‘
اسکول کی طالبہ حسینہ نے بتایا کہ وہ تعلیم حاصل کر کے ٹیچر بننا چاہتی ہیں کیونکہ ان کے علاقے میں کوئی ٹیچر نہیں ہے، ’’ ہم اس تپتی دھوپ میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، ہمارے صاف ستھرے کپڑے خراب ہوتے ہیں، ہمیں شدید گرمی لگتی ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
حسینہ مزید کہتی ہیں کہ جب میں دیگر علاقوں میں اسکولوں کے بچوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے کہ وہاں تو بچوں کے لئے عمارت ہے ،کلاس رومز ہیں، ڈیسک ہیں، تمام سہولیات ہیں اور ہمارے لئے کچھ نہیں۔
لعل شریف کی اس جدو جہد کو علاقے کے لوگ بھی سراہتے ہیں۔ تعلیم کے لئے سرگرم ایکٹیوسٹ ڈاکٹر جواد نے بتایا کہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ لعل شریف اس عمر میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں، ایسے لوگوں ہی کی بدولت ہمارا معاشرے میں روشنی ہے اور لوگ تعلیم کی اہمیت کو محسوس کر رہے ہیں۔