مالی بحران کے شکار سرکاری اسپتالوں کا طبی عملہ پریشان
17 نومبر 2023وفاقی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اسپتالوں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے، جس پر ڈاکٹروں اور میڈیکل اسٹاف میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ نے اسلام اباد کے ہسپتالوں اور وفاق کے زیر انتظام چلنے والے شیخ زید ہسپتال لاہور کے لیے مزید اضافی رقم دینے سے مبینہ طور پر انکار کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ان اسپتالوں میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
میڈیکل کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ اٹھائے تو ڈاکٹر، نرسیں، پیرامیڈیکل اسٹاف اور مریض سب شدید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ اضافی بجٹ گیارہ ارب روپے کا ہے۔ میڈیکل کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ ارکان کا یہ خیال ہے کہ اگر اربوں روپے کا اضافی بجٹ وفاقی حکومت کے ماتحت چلنے والے صحت کے اداروں کو نہ دیا گیا تو وہ ممکنہ طور پر بند بھی ہو سکتے ہیں۔
بحرانی کیفیت کا سامنا کرنے والوں میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز)، فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال (پولی کلینک)، فیڈرل جنرل اسپتال، دواؤں کی بحالی کا قومی ادارہ، بنیادی طبی مراکز، ڈسپنسریاں اورمحکمہ صحت سے منسلک ادارے شامل ہیں۔
بحرانی کیفیت
اس کے علاوہ شیخ زید اسپتال لاہور بھی اس سے مالی بحران سے متاثر ہوگا کیونکہ وہ بھی وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے چلتا ہے۔ میڈیکل کمیونٹی کا کہنا ہے کہ حکومت بحرانی کیفیت کا احساس نہیں کر رہی۔ ینگ ڈاکٹرز ایسویشن شیخ زید اسپتال کے صدر حسن رضا کا کہنا ہے کہ اب صورتحال یہ ہے کہ جان بچانے والی ادویات کی بھی قلت ہونا شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے علاوہ ایکسرے اور ریڈیالوجی سے متعلق سامان بھی بہت کم تعداد میں ہے جبکہ بحرانی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایمرجنسی میں لکھنے والے پیپرز جن پر دوائی تجویز کی جاتی ہے ان کی بھی کمی ہے۔‘‘
ڈاکٹر حسن رضا کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال اب مزید ابتر ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''مالی مشکلات ایک سال سے چل رہی ہیں۔ ایک سال سے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو تنخواہیں وقت پر نہیں مل رہیں اور انہیں احتجاج کرنا پڑتا ہے یا اس کے لیے اواز بلند کرنی پڑتی ہے۔‘‘
شیخ زید اسپتال سے ہی تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سحر ندیم کا کہنا ہے کہ فنڈنگ میں کمی نے مریضوں کے لیے بھی بہت سی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے اسپتال میں ایک ہزار سے زیادہ مریض آتے ہیں اور وہ انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ ایسے میں ہم انہیں دواؤں اور ٹیسٹوں کے لیے بار بار باہر بھیجتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر سحر ندیم کے مطابق اسپتال میں کوئی ایمرجنسی دوائی نہیں ہے۔ ''اگر کوئی دل کا مریض یا کوئی نازک حالت میں لایا جاتا ہے، تو ہم اس کی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ڈرپ سے لے کر کئی بنیادی چیزیں موجود ہی نہیں ہیں۔‘‘
طبی منصوبے مکمل نہیں ہوپائیں گے
ینگ ڈاکٹر ایسویشن اسلام اباد کے صد ڈاکٹر فیض اچکزئی کا کہنا ہے کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ دواؤں کی کمی ہونا شروع ہو گئی اور یہاں تک اپریشن تھیٹرز میں گلوز بھی نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر اس پر فورا ایکشن نہیں لیا گیا تو ہیلتھ کے جتنے نئے پروجیکٹس ہیں وہ مکمل نہیں ہو سکیں گے۔ مثال کے طور پر اسلام اباد میں ایک نیا ایمرجنسی سینٹر بنا رہے تھے اس پر کام نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ اداروں کی توسیعی منصوبوں پر بھی کام نہیں ہوگا۔‘‘
نرسوں کو تنخواہیں نہیں مل رہیں
ڈاکٹر فیض اچکزئی کے مطابق فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسٹاف کے کچھ ارکان کو تنخواہیں بھی نہیں مل پا رہی۔ ''ماضی میں حکومت نے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ایک اتھارٹی بنا دی تھی، جس کے تحت نرسوں کو بھرتی کیا اور بعد میں وہ اتھارٹی ایک قانون کے ذریعے ختم کر دی گئی لیکن اب ان نرسوں کا مستقبل غیر یقینی ہے اور انہیں تنخواہیں بھی نہیں ادا کی جا رہیں، جس کی وجہ سے ڈیڑھ سو سے زیادہ نرسیں احتجاج پر مجبور ہیں۔‘‘
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے رہنما ڈاکٹر سلمان قاضی کا کہنا ہے کہ فنڈز کی یہ کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکومت کی محکمہ صحت میں کتنی دلچسپی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' حکومت اگر عوام کا بھلا چاہتی ہے تو وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کے صوابدیدی فنڈز سے فورا رقم جاری کرے تاکہ اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔‘‘
کوئی بحرانی کیفیت نہیں ہے
ڈاکٹرز اور میڈیکل کمیونٹی کے دعووں کے برعکس وزارت خزانہ کا دعویٰ ہے کہ اسپتالوں میں کوئی بحرانی کیفیت نہیں ہے اور تمام ہسپتالوں کو بجٹ جاری کیا جا رہا ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان قمر عباسی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کسی بھی اسپتال میں کوئی بحرانی کیفیت نہیں ہے اور وزارت صحت کے پاس خاطر خواہ فنڈ موجود ہے۔ اسلام اباد کے اسپتالوں اور دوسرے متعلقہ اداروں کے لیے بھی جو بجٹ میں فنڈ مختص کیا تھا وہ جاری کیا جا رہا ہے۔‘‘
قمر عباسی کے مطابق کچھ بجٹ گرانٹس کے حوالے سےکمی بیشی ہو سکتی ہے جس کو عموماً دور کر لیا جاتا ہے۔ '' وزارت خزانہ نے کبھی بھی نہیں کہا کہ ضرورت کے لیے رقم مہیا نہیں کی جائے گی۔ تاہم یہ حکومت کی پالیسی ہے کہ وہ اس طرح کے اضافی بجٹ کی حوصلہ شکنی کرے کیونکہ اس کے بغیر مالی نظم و ضبط برقرار کرنا مشکل ہے۔‘‘