1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مردوں کے لیے بھی سوچیے!

23 اپریل 2021

شدت پسندی ہر نظریے ہر خیال اور معاملے کو الجھا دیتی ہے۔ پھر چاہے وہ مذہب ہو یا جدید معاشروں کے نظریے، جو اپنے کٹر پن کی وجہ سے خود ان کے ماننے والوں کو بھی کئی بار حیرت زدہ کر جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3sUjP
DW Urdu Blogerin Shumaila Hussain
تصویر: privat

ایسا ہی کچھ ہمارے ہاں فمینزم کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ بات شروع ہوئی تھی تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی مساوات کی لیکن اب اس کا رخ عجیب شدت پسند خواہشات کی طرف موڑا جانے لگا ہے۔

کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ میری ہم آواز بہنیں اب اپنا ایک الگ خیالی جزیرہ بنا کر ہی دم لیں گی اور اس میں یہ ساری دنیا کے مرد لے جا کر چھوڑ دیں گی یا پھر خود جا بسیں گی۔

مرد مخالف بیانات کی جو لہر پچھلے ایک دو برس میں چلی ہے، اسے دیکھتے ہوئے بہت گریس مارکس دینے کے باوجود بھی سب کچھ سمجھ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔

ان باتوں کی وجہ سے عام طور پر جو منشور سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے۔  آج کی عورت کیا چاہتی ہے؟ کیا بالکل وہی جو مرد کرتے ہیں۔ یعنی گالم گلوچ، بدتمیزی، سگریٹ نوشی، راتوں میں دیر تک بلا وجہ گھر سے باہر پھرنے کی آزادی اور۔۔۔

اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنسی آزادی بھی اب ساری کی ساری عورتوں کو ہی ملے اور مرد ایسی ہر خواہش اور آزادی کو تج دیں کیونکہ بہرحال عورت کے 'نومطالباتی اختیارات‘ کا تقاضا یہی ہے کہ مرد مکمل طور پر انہی جیسی ایک عورت ہو جائے، یعنی وہ عورت جو مرد معاشرے کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے نکلی ہے، چاہے بعد میں پھر یہ مرد کسی ’مادرسری سماج‘ میں اپنے حقوق کی جنگ لڑتا ہوا دکھائی دے۔

میڈیا کا کردار

میرے خیال میں یہ سب مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ آپ انڈین، پاکستانی اور دیگر سوشل میڈیا فورمز پر موجود فمینزم کے جھنڈے تلے بنی شارٹ اور لانگ موویز ہی دیکھ لیں، سوائے ایک دو کے باقی سب کے اندر لڑکیوں کو ایسے ہی خواب بنتے دکھایا جاتا ہے کہ جن میں وہ سڑک پر چلتے لڑکوں کو چھیڑیں، سیٹیاں بجائیں، گھور سکیں اور انہیں بھی ایسا ہی غیر محفوظ محسوس کروا سکیں جیسا وہ خود کرتی ہیں۔

آپ کہیں گے یہ تو دیکھنے والوں کو احساس دلانے کے لیے بنائی جاتی ہیں کہ عورتوں کو کیسا محسوس ہوتا ہے۔

لیکن احساس دلانے اور انتقامی جذبے کا اظہار کرنے میں پھر کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ چند ایک موویز یا ڈراموں کو بنیاد بنا کر بات نہیں کی جا سکتی۔

جذبہ آزادی یا انتقامی

لیکن وہی بات، یہاں بھی اصل زندگی کے مشاہدات کام آتے ہیں کہ نئی نئی جوان ہوتی نسل میں یہ جذبہ آزاد ہونے سے زیادہ انتقامی بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ کیا یہ واقعی عورت کے لیے کسی محفوظ معاشرے کا ماڈل ہے؟

یعنی ایسا معاشرہ جس میں عورت اپنی کٹھ پتلی جیسی حیثیت سے چھٹکارا پائے تو مرد کو اس منصب پر دھکیل دے؟ توازن تو دونوں صورتوں میں نہیں بن پایا۔

عورتوں کو اختیار دینے کے دکھاوے میں ورکنگ وومن کے سر پر گھر سے باہر کے کام بھی لاد دیے گئے اور گھر کے اندر کے کام بھی کسی طرح کم ہونے میں نہیں آتے۔

یہ بھی پڑھیے۔کنواری صرف لڑکی ہی کیوں ہو؟

یوں دوہری بلکہ تہری ذمہ داری کے ساتھ دن رات کام کرتی عورتوں نے اپنے گھر کے مردوں کو مزید آرام طلب بنا دیا۔

بتائیں کیا ایسا نہیں ہے؟

پاکستانی گھروں میں موجود بیٹیاں، بیٹوں کے مقابلے میں زیادہ اچھی پوزیشنز لاتی ہیں، اچھی جابز، گھر داری اور باہر داری سب میں آگے ہیں۔

بیٹیوں کی معاشی اور سماجی خودمختاری ہمارے فمینزم کا اصل مقصد ہونا چاہیے لیکن ایسا کرتے کرتے اگر ہم اپنے گھر کے مردوں کو اس قدر آرام پسند بناتے جائیں گے تو یہ بھی ہمارے ساتھ ہی ظلم ہے۔

اس 'مردانہ وار جدوجہد‘ کا انجام یہی دکھائی دیتا ہے کہ کچھ صدیوں بعد یہی مرد آج کی عورت کی طرح آزادی مارچ کرتے اور عورت کے مظالم سے نجات کا مطالبہ کرتے دکھائی دیں گے۔

گرم خون کو ہر نعرہ بہت دلفریب لگتا ہے، یہ والا تو ہے بھی، لیکن سوچیے کہ آپ اسے کس حد تک نبھانا افورڈ کر سکتے ہیں؟ اپنے لیے تو ہر کوئی سوچتا ہے، آنے والے مردوں کے لیے سوچیے!

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید