1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقتول نیپالی صحافی کو زندہ دفن کیا گیا تھا، ماؤ باغی کا اعتراف

8 جنوری 2013

نیپالی پولیس کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئےسابق علیحدگی پسند ماؤ باغیوں کے گروہ کے ایک رکن نے اعتراف کیا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران انہوں نے ایک صحافی کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ درگور کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/17G3W
تصویر: Radijojo

نیپال کے مغربی ضلع دالخ کی پولیس کے انسپکٹر بنود شرما نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ علیحدگی پسند ماؤ باغیوں کے ایک رکن لاچھی رام گھارتی نے مذکورہ صحافی کے قتل میں حصہ لینے کا اعتراف کیا ہے۔ پولیس نے اس تحریک تحریک کے درمیانے درجے کی قیادت کے پانچ ارکان کو سال 2004ء میں ریڈیو کے ایک رپورٹر دیکیندرا راج تھاپا کو اغواء کے بعد قتل کر نے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ بنود شرما کے مطابق: ’’لاچھی رام نے تفتیش کے دوران بتایا کہ پانی کی سپلائی کے معاملے پر مذکورہ صحافی کی گفتگو پر ہمیں اعتراض تھا جس پر اسے اٹھا کر سکول میں لے جایا گیا اسے متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ بےہوش ہو گیا تب اسے گڑھا کھود زندہ دفن کر دیا۔‘‘#b#

مقتول صحافی راج تھاپا کی بیوہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ اپنے شوہر کے قتل پر وہ انصاف ملنے سے تقریباﹰمایوس ہو چکی تھیں لیکن اب جبکہ ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں تو اسے امید ہے کہ اب انصاف ہو گا۔

صحافی کے قتل میں ملوث ماؤ باغیوں کی گرفتاری نیپالی فوج کے کرنل کمار لاما کی برطانوی عدالت میں پیشی کےچند دن بعد ہی سامنے آئی ہے۔ 46 سالہ کرنل لاما پر سال 2005ء میں ان کے زیر انتظام بیرک میں دو افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام ہے۔ کرنل لاما ان دنوں جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

نیپال میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک چلنے والی ماؤ باغیوں کی علیحدگی کی تحریک کے دوران ایک اندازے کے مطابق 16 ہزار لوگ مارے گئے تھے اور ایک ہزار کے قریب ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ نیپال کی ریاستی فوج اور ماؤ باغیوں، دونوں پر قتل سمیت تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزمات ہیں۔ انسانی حقوق کےلیے کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کےلیے بہت محدود اقدامات کیے گئے ہیں۔

rh/aba (AFP)