مہاجرین کو روکنے کے لیے لیبیا کے ساتھ معاہدہ ضروری
13 جنوری 2017سن 2015ء میں یورپی یونین کی جانب سے 'صوفیہ‘ نامی بحری آپریشن کے آغاز کے بعد انسانوں کے اسمگلر افریقی مہاجرین کو شکستہ کشتیوں کے ذریعے بحیرہء روم عبور کراتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ مسکت نے کہا کہ اب یورپی یونین کو ایک قدم اور آگے جانا چاہیے اور لیبیا کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیے، تاکہ انسانی اسمگلروں کو ان کارروائیوں کے لیے لیبیا کے ساحل استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔
جنوری کے آغاز سے یورپی یونین کے ششماہی صدارت سنبھالنے والے ملک مالٹا نے کہا کہ لیبیا کے ساتھ معاہدے کے تحت یہ اجازت حاصل کی جائے گی، کہ یورپی بحری مشن لیبیا کے پانیوں میں کارروائیاں کر سکے اور مہاجرین کو وہیں روکا جائے، ’’اب لیبیا کے سمندری حدود میں کارروائیوں کی ضرورت ہے، ظاہر ہے لیبیا کی اجازت کے ساتھ۔‘‘
یورپی یونین لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ یونٹی حکومت سے تعاون چاہتی ہے۔ لیبیا میں سن 2011ء میں مسلح بغاوت اور معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے خانہ جنگی کی سی کیفییت ہے اور مختلف مسلح گروہ شورش کا باعث ہیں۔ اسی لاقانونیت کا فائدہ اٹھا کر انسانوں کے اسمگلر لیبیا کے ساحلوں کے غیرقانونی تارکین وطن کو یورپ پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مسکت نے کہا کہ یورپی یونین کو لیبیا کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہونا چاہیے، دوسری صورت میں موسم بہتر ہونے پر مہاجرین کے ایک غیرمعمولی بہاؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسم بہار سے مہاجرین کی بڑی تعداد بحیرہء روم عبور کر کے یورپی یونین میں داخلے کی کوشش کر سکتی ہے۔
مسکت کا کہنا ہے کہ لیبیا کے ساتھ بات چیت کا یہ بہترین وقت ہے، ’’ہمیں سیاسی اشارہ دینا ہو گا یعنی انسانوں کے اسمگلروں کے غیرقانونی کاروبار کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے کا۔‘‘
مالٹا کی خواہش ہے کہ جس طرح یورپی یونین نے گزشتہ برس مارچ میں ترکی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، اسی طرز کا معاہدہ لیبیا کے ساتھ بھی کیا جائے۔ یہ بات اہم ہے کہ ترکی کے ساتھ معاہدے کے بعد بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی تھی۔