1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: فوج مخالف صحافی کا انتقال

امجد علی21 اپریل 2014

میانمار کے ایک بزرگ صحافی اور اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کے ایک ساتھی وِن ٹِن، جنہوں نے فوجی حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کی بناء پر 19 سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، پیر 21 اپریل کو 84 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

https://p.dw.com/p/1BldZ
نو مارچ 2011ء کی اس تصویر میں وِن ٹِن آنگ سان سوچی کے ساتھ نظر آ رہے ہیں
نو مارچ 2011ء کی اس تصویر میں وِن ٹِن آنگ سان سوچی کے ساتھ نظر آ رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

وِن ٹِن آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (NLD) کے بانی ارکان میں شامل تھے اور پارٹی کے رہنماؤں میں سے ایک تھے لیکن کہا کرتے تھے کہ وہ ایک صحافی ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 2010ء میں نیوز ایجنسی روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:’’میں دیانتداری سے یہ سوچتا ہوں کہ مجھے بنایا ہی ایسے گیا تھا کہ میں ایک سیاستدان کی بجائے ایک صحافی بنوں۔‘‘

تاہم وہ ایک ایسے سرگرم صحافی تھے، جو اپنے ہم وطنوں کو عشروں کی آمریت کے نیچے پِستا دیکھ کر خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے تھے۔ 1988ء میں اُنہوں نے ملک بھر میں ہونے والے اُن احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا، جنہیں فوج نے بری طرح سے کچل دیا تھا۔ اس کے ایک ہی سال بعد جب نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی وجود میں آئی تو اِس کی تشکیل میں اُنہوں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

27 مئی 2010ء کی اس تصویر میں وِن ٹِن (نیلے لیاس میں) ینگون میں پارٹی رہنماؤں سے خطاب کر رہے ہیں
27 مئی 2010ء کی اس تصویر میں وِن ٹِن (نیلے لیاس میں) ینگون میں پارٹی رہنماؤں سے خطاب کر رہے ہیںتصویر: AP

روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے ایک اور بزرگ صحافی اور سیاستدان اور وِن ٹِن کے ایک قریبی دوست تھا بان نے بتایا:’’ہم ایک انتہائی بے لوث اور نڈر سیاستدان سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ این ایل ڈی کے لیے ہی نہیں بلکہ میانمار کے عوام کے لیے بھی ایک ایسا نقصان ہے، جسے پورا نہیں کیا جا سکے گا۔‘‘

ایسا نہیں تھا کہ وِن ٹِن اور 2010ء میں طویل نظر بندی سے رہا ہونے والی سوچی کے درمیان ہمیشہ ہی ہر بات پر اتفاقِ رائے رہا ہو۔ جب سوچی کی رہائی اور دھاندلی سے عبارت عام انتخابات کے بعد ایک اصلاح پسند حکومت برسرِاقتدار آئی اور تقریباً پانچ عشروں سے چلی آ رہی فوجی حکومت ختم ہوئی تو وِن ٹِن نے اپریل 2012ء میں ضمنی انتخابات میں سوچی کی بطور امیدوار شرکت کی مخالفت کی۔ سوچی کی اس شرکت کے نتیجے میں این ایل ڈی پارلیمان تک پہنچنے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن وِن ٹِن کا استدلال یہ تھا کہ اس طرح اس اپوزیشن جماعت نے ایک ایسی حکومت کو با اختیار بنا دیا ہے، جو سابق جرنیلوں سے بھری ہوئی تھی۔

این ایل ڈی کے ایک سینیئر رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اُن کے خیال میں جماعت کے اندر وہ واحد رہنما تھے، جو سوچی کے ساتھ اختلافِ رائے کا کھلے عام اظہار کرتے تھے:’’لیکن اُنہوں نے سوچی کو دھوکا کبھی نہیں دیا۔ وہ آئین میں ایسی ترامیم کے زبردست حامی تھے، جن کے نتیجے میں سوچی کے صدر بننے کی راہ ہموار ہوتی ہو۔‘‘

وِن ٹِن تقریباً بیس سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کے بعد 23 ستمبر 2008ء کو رہا ہوئے تھے، تب اُن کی عمر اُناسی برس تھی
وِن ٹِن تقریباً بیس سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کے بعد 23 ستمبر 2008ء کو رہا ہوئے تھے، تب اُن کی عمر اُناسی برس تھیتصویر: picture-alliance/ dpa

وِن ٹِن کو اُن کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے چار جولائی 1989ء کو تین سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں فوجی حکومت اُن کی قید میں بار بار توسیع کرتی رہی۔ جب اُنہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کی تو اُنہیں قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور پَین انٹرنیشنل کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور اظہارِ رائے کی آزادی کی علمبردار دیگر تنظیموں کی طرف سے چلائی گئی تحریکوں نے وِن ٹِن کو ایک جابرانہ حکومت کے خلاف برسرِپیکار ایک ایسی شخصیت بنا دیا، جسے دنیا بھر میں جانا جاتا تھا۔ جب وہ 23 ستمبر 2008ء کو عام معافی کے دوران رہا کیے گئے تو وہ میانمار کے سب سے طویل عرصے تک قید بھگتنے والے سیاسی قیدی بن چکے تھے۔

اپنی رہائی پر روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا:’’میرے مستقبل کے منصوبے یہ ہیں کہ میں اُس وقت تک لڑتا رہوں گا، جب تک کہ فوجی آمریت ختم نہیں ہو جاتی۔‘‘ تب ابھی اُنہوں نے قیدیوں کا ہی لباس پہن رکھا تھا، اس بات پر احتجاج کرنے کے لیے کہ اُنہیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔

وِن ٹِن نے کبھی شادی نہیں کی۔ اُنہیں جسم کے اندر خون بہنے کی شکایت کے بعد مارچ کے اوائل میں ہسپتال داخل کروایا گیا تھا، جہاں وہ گردے ناکارہ ہو جانے کی بناء پر انتقال کر گئے۔ این ایل ڈی 23 اپریل کو اُن کی رسمِ تدفین کے انتظامات کر رہی ہے۔