نامیاتی کوڑا، ٹھکانے لگانے کے لیے پاکستانی طالبہ کا منصوبہ
20 مارچ 2014اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے تعاون سے پاکستان میں چلنے والے پروگرام گلوبل پارٹنرشپ آن سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں کوڑے کو مناسب انداز سے ٹھکانے نہیں لگایا جا رہا اور جو طریقہ کار استعمال ہوتا ہے، وہ آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں کی آبادی دو کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے، وہاں سات سے آٹھ ہزار میڑک ٹن سالڈ ویسٹ روزانہ کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔ ایسے میں کوڑے کو ٹھکانے لگانا میونسپل اداروں کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں سب سے زیادہ کوڑا آرگینک ویسٹ یا گھروں سے نکلنے والے کچرے پر مشتمل ہوتا ہے جسے دوبارہ استعمال کے قابل نہیں بنایا جاتا اور اسے ٹھکانے لگانے کا عمل بھی مناسب انداز میں نہیں کیا جاتا۔
آرگینک ویسٹ جراثیم کے باعث میتھین گیس کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔ میتھین گیس ان گرین ہاؤس گیسوں میں سے ایک ہے جن کے باعث گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت میں اضافہ ہوتا ہے۔
کراچی میں شہری ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر فرحان انور کے مطابق کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نور مہدی نے برطانیہ کی لیورپول یونیورسٹی میں اپنے ایم ایس سی کے لیے جو مقالہ پیش کیا ہے اس سے شہر میں مقامی سطح پر آرگینک ویسٹ کو ٹھکانے لگانے میں کافی مدد ملے گی۔ انہوں نے بتایا، ’’کراچی میں ابھی بھی جو کوڑا ہےاس میں تناسب کے لحاظ سے آرگینک ویسٹ سب سے زیادہ ہے۔ اور اس کی کوئی ری سائکلنگ بھی نہیں ہو رہی ہے۔ جو ہو رہی ہے وہ غیر نامیاتی ویسٹ کی ہو رہی ہے۔ یہ اتنا بڑا وسائل ہے جو ضائع جا رہا ہے تو نور کا جو مقالہ ہے وہ اس کو ضائع ہونے سے بچانے پر ہے۔‘‘
فرحان انور کے مطابق نور مہدی نے کراچی آکر ان کی تنظیم کے ساتھ جو سروے اور ریسرچ کی اس کے مطابق اگر شہروں سے اکٹھا ہونے والے آرگینک ویسٹ سے کھاد تیار کی جائے اور اسی کاشتکاری کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ شہری حکومت اور میونسپل اداروں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، ’’ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آرگینک ویسٹ کو کس طرح بہترین انداز میں ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے۔ ہم نے اس خیال پر کام کیا کہ کیوں نہ آرگینک ویسٹ کی منیجمنٹ کو جوڑ دیں آرگینک فارمنگ اور کاشتکاری سے۔ پھر اس میں کمپوسٹنگ کا معاملہ بھی آگیا کہ کس طرح ہم اسے کمپوسٹ یا قدرتی کھاد میں تبدیل کر کے ماحول دوست فرٹیلائزر تخلیق کرسکتے ہیں۔ پھر محلے اور بعد میں شہر کی سطح پر اس عمل کو بڑھائیں یعنی آرگینک فارمنگ کی جانب کمیونٹی کی سطح پر توجہ دلائیں۔ اس طرح سے کمیونٹی کی سطح پر آرگینک کوڑا بھی کم پیدا ہو گا۔‘‘
فرحان انور کے مطابق ارگینک ویسٹ کو شہری سطح پر ٹھکانے لگانے سے نہ صرف سالڈ ویسٹ مناسب طور ٹھکانے لگ سکے گا بلکہ روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے مثلاً کھاد بنانے اور بیچنے کا کاروبار۔ انہوں نےبتایا کہ ریسرچ کے دوران یہ بھی محسوس کیا گیا کہ میونسپل کی سطح پر کوڑے کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانے کا کام غیر تسلی بخش اور کئی مشکلات کا شکار ہے۔ تاہم اگر حکومت آرگینک ویسٹ کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانے کے لیے اسے کاشتکاری میں استعمال کرے تو یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کام کو سنجیدگی سے دیکھا جائے۔ فرحان انور کا مزید کہنا تھا، ’’بنیادی طور پر یہ کام حکومت کو کرنا چاہیے لیکن اگر حکومت خود نہیں کر رہی تو وہ اتنی سہولت دے کہ اگر شہر کی سطح پر اس قسم کی چیزیں شروع کی جائیں تو کوئی کمپوسٹ پلانٹ بنا دے کیونکہ جو سارا آرگینک ویسٹ نکلتا ہے وہ لینڈ فل سائٹ پر علیحدہ کرے کمپوسٹ پلانٹ کو بھیجے جہاں کھاد بنائی جائے جو شہر کی ہریالی میں استعمال کیا جائے۔ لیکن ہماری حکومت کا جو حال ہے وہ تو سب جانتے ہیں ۔ اس لیے ہم نے مقامی سطح پر شہریوں کو شامل کر کے اس پراجیکٹ کو دیکھا ہے اور اگر شہری اس میں دلچسپی لیں تو یہ پراجیکٹ قابل عمل ہو سکتاہے۔‘‘
آرگینک ویسٹ کی فارمنگ کے فوائد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی آرگینک ٹریڈ ایسوسی ایشن کے مطابق اگر صرف امریکا میں ہی تمام کاشتکار آرگینک فارمنگ کی جانب متوجہ ہو جائیں تو ماحول میں شامل ہوجانے والی سالانہ پانچ ملین پاؤنڈ جراثیم کش ادویات سے چھٹکارا مل سکتا ہے جو ماحولیاتی آلودگی میں بڑی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔