نیپالی خادماؤں کا سعودی سفارتکار، مہمانوں پر ریپ کا الزام
9 ستمبر 2015نئی دہلی سے بدھ نو ستمبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ یہ بات آج ایک اعلٰی بھارتی پولیس افسر کی طرف سے بتائی گئی۔ پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر راجیش کمار نے بتایا کہ دونوں نیپالی خواتین کی عمریں تیس اور پچاس برس ہیں اور انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ایک سعودی سفارت کار نے، جس کا نام نہیں بتایا گیا، انہیں اپنے ایک فلیٹ میں بند رکھا جہاں ان سے بار بار جنسی زیادتیاں کی گئیں۔
اسسٹنٹ پولیس کمشنر راجیش کمار نے بتایا، ’’ان دونوں خواتین کو پولیس اہلکاروں نے نواحی شہر گڑگاؤں کے ایک گھر سے پیر کو رات گئے برآمد کیا تھا۔ ان کی رہائی اس وجہ سے ممکن ہو سکی کہ ان کی ساتھی ایک تیسری ملازمہ نے، جسے حال ہی میں نوکری پر رکھا گیا تھا، ان خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے بارے میں ایک مقامی غیر حکومتی تنظیم کو خبردار کر دیا تھا۔‘‘
پولیس کے مطابق ان خواتین کی قانونی شکایت پر ریپ، لواطت اور حبس بےجا کے الزامات کے تحت ایک مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ راجیش کمار کے بقول ان خواتین نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ اس سعودی سفارت کار کی ایک رہائش گاہ پر انہیں مبینہ طور پر اس سفارت کار کے مہمان بھی جنسی حملوں کا نشانہ بناتے رہے، ’’اسی وجہ سے درخواست میں لگائے گئے الزامات میں گینگ ریپ کا الزام بھی شامل ہے۔‘‘
اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ ان الزامات کے بارے میں موقف کے لیے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں سعودی عرب کے سفارت خانے سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔ پولیس کے مطابق اس مقدمے میں چھان بین شروع کرنے سے پہلے یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا اس سعودی سفارت کار کو بھارت میں اپنے خلاف کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی کے خلاف معمول کی سفارتی مامونیت حاصل ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق حکام نے اس مقدمے میں ایک غیر ملکی سفارت کار کا نام آنے کی وجہ سے مقامی پولیس سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
اے ایف پی نے مزید لکھا ہے کہ ان دو نیپالی گھریلو ملازماؤں میں سے ایک نے آج بدھ کے روز بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ متعلقہ سعودی سفارت کار نے اسے اور اس کی ساتھی دوسری ملازمہ کو گڑگاؤں میں اپنے فلیٹ پر قریب چار ماہ تک بند کیے رکھا۔
اس نیپالی خاتون نے نئی دہلی ٹیلی وژن کو بتایا، ’’انہوں نے ہمیں ریپ کیا۔ ہمیں حبس بےجا میں رکھا اور ہمیں کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں دیا جاتا تھا۔ جب بھی ہم نے فرار ہونے کی کوشش کی، ہمیں مارا پیٹا جاتا تھا۔‘‘ ٹی وی پر بیان دیتے ہوئے اس خاتون نے جب یہ سب باتیں کہیں، اس وقت اس نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے اپنا چہرہ ایک اسکارف سے ڈھانپ رکھا تھا۔
ان خواتین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ انہیں سعودی عرب کے شہر جدہ سے نئی دہلی لایا گیا اور وہاں انہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں ملازمت کے لیے بھارت بھیجا جا رہا ہے۔