نیپالی وزیراعظم نے انتخابات کا اعلان کردیا
28 مئی 2012نیپال میں طویل اندرونی خانہ جنگی اور سیاسی انتشار کے بعد منتخب ہونے والی پارلیمان کا مستقبل اب تاریک نظر آتا ہے اور صورتحال نئے انتخابات کی جانب گامزن ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نومبر کے طے شدہ انتخابات سے قبل ہی پارلیمان تحلیل کردی جائے گی۔ دراصل ملک کے نئی شناخت کے حوالے سے انتظامی تشکیل کا معاملہ تنازعے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ نیپال میں 2008ء میں ماؤ نواز باغیوں نے اسلحہ پھینک کر انتخابات جیتے تھے اور ملک سے صدیوں پرانی بادشاہت کا خاتمہ کیا تھا، جس کے بعد موجودہ پارلیمان تشکیل پائی تھی۔
گزشتہ روز ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں ملک کے ماؤ نواز وزیر اعظم بابو رام بھٹہ رائے نے تسلیم کیا کہ وہ نیا آئین نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے بقول حکومت نے نئی دستور ساز اسمبلی کے لیے 22 نومبر کو انتخابات کے ذریعے مینڈیٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نیپالی وزیر اعظم جو چار جماعتی حکومتی اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں، نے انتخابات تک اقتدار سے منسلک رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ ان کے بقول انتظامی طاقت ان کی حکومت کے پاس ہی رہے گی۔
وزیر اعظم کے خطاب نے حکومتی اتحاد کے اندر بھی غصے کے جذبات کو بھڑکایا ہے، جہاں سے اب بھٹہ رائے کے استعفے کے مطالبے سامنے آرہے ہیں۔ یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی اور یونائیٹڈ ڈیموکریٹک مادھیسی فرنٹ نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ انتخابات غیر آئینی ہوں گے۔ نیپالی پارلیمان کو ایسا آئین تشکیل دینا تھا جو ایک سیکیولر جمہوریہ کی تشکیل کرسکے۔ اس پارلیمان سے امید کی جارہی تھی کہ برسوں کی خانہ جنگی اور ہزاروں افراد کی موت کے بعد ملک کی قریب ایک سو لسانی اکائیوں کو متحد کردیا جائے گا۔
تنازعہ یہ ہے کہ ماؤ نواز ملک میں لسانی بنیادوں پر چودہ صوبوں کا قیام چاہتے ہیں جبکہ ان کے مخالفین کو اس فارمولے کے باعث انتشار کا ڈر ہے۔ ملکی سپریم کورٹ نے آئین کی تشکیل کے لیے پارلیمان کو چار بار مہلت دی اور ڈیڈ لائن میں توسیع کی۔ مبصرین کو خدشہ ہے کہ نئے آئین کے بغیر نیپال میں power vaccum پیدا ہوجائے گا۔ تلک پاٹھک نامی تجزیہ نگار کے مطابق ایسی صورتحال میں اگر انتخابات منعقد کیے جاتے ہیں تو ان میں تشدد کا عنصر نمایاں ہوسکتا ہے۔
(sks/ ng(AFP