وزیرستان میں ڈرون حملے، پاکستان کی طرف سے مذمت
12 جون 2014پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جمعرات کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے حملوں سے پاکستانی حکومت کی ملک اور خطے میں امن و استحکام کے لیے کوششوں پر منفی اثرا ت مرتب ہوتے ہیں۔ خیال رہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے گزشتہ تقریباﹰ چھ ماہ سے پاکستان میں اپنے ڈرون آپریشن روک رکھے تھے اور نئے حملے اس سال قبائلی علاقوں پر امریکا کی جانب سے کیے گئے پہلے ڈرون حملے ہیں۔
یہ حملے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ہوائی اڈے پر دہشت گردانہ حملوں کے تین دن بعد کیے گئے ہیں۔ کراچی ایئر پورٹ پر حملے میں حملہ آوروں سمیت کم از کم 35 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری پہلے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پھر اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے قبول کر لی تھی۔ امریکی ڈرون حملوں کے بعد پاکستان کے مقامی میڈیا سے ایسی خبریں بھی نشر کی گئی تھیں کہ ان حملوں میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کےشدت پسند بھی ہلا ک ہوئے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی عدیل کا کہنا ہے کہ ازبک شدت پسندوں کی ہلاکت پر عام پاکستانیوں کو کوئی پریشانی نہیں بلکہ خوشی ہوئی ہو گی۔ انہوں نے کہا، ’’اصولی طور پر تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری زمین پر اور فضائی حدود میں کوئی ہماری مرضی کے بغیر نہ آئے۔ ڈرون آتا ہے تو بھی ہماری ملکی فضاؤں کی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن یہ چیچن، عرب، افغان اور ازبک جو بیٹھے ہیں، کیا انہوں نے ہماری زمینی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی۔ بعض علاقے تو مقبوضہ ہو گئے ہیں۔‘‘
امریکا کی جانب سے چھ ماہ کے وقفے سےکیے گئے ڈرون حملوں نے پاکستان میں ایک مرتبہ پھر اس بحث کو بھی زندہ کر دیا ہے کہ آیا یہ حملے پاکستانی حکومت کی مرضی سے ہو رہے ہیں، کیونکہ بظاہر سرکاری طور پر تو ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے لیکن کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں پاکستانی حکومتوں کی غیر اعلانیہ رضا مندی شامل رہی ہے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار ایئر مارشل ریٹائرڈ مسعود اختر کا اس بارے میں کہنا ہے، ’’جو دفتر خارجہ کہتا ہے وہ کیونکہ مخالف رد عمل، جو ملک کے اندر سے ہونا ہے اور جو غیر ریاستی عناصر کی طرف سے ہونا ہے، اس کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ ورنہ تقریباﹰ اس کی منظوری ہے کہ آپ ڈرون حملے کر سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں دو ہزار آٹھ کے بعد سے امریکی ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں میں تیزی آئی اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک ان حملوں میں تین ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ تاہم امریکی حکام انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مؤثر ہتھیار سمجھتےہیں۔