ویزا فری انٹری کا دارومدار ترکی پر ہے، جرمن وزیر خارجہ
2 اگست 2016منگل کے روز اشٹائن مائر نے ترکی کی اس دھمکی کو نظر انداز کیا جس میں ترک وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اگر یورپی یونین اس کے شہریوں کو ویزے کے بغیر یورپی ممالک میں سفر کی اجازت نہیں دیتا تو وہ مہاجرین سے متعلق یورپی یونین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے پر عمل درآمد روک دے گا۔
جرمن وزیر خارجہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’ویزے سے استثناء کے لیے کچھ شرائط ہیں، اور فریقین اس بارے میں جانتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ترکی نے معاہدے میں اس بات کی حامی بھری تھی کے وہ تمام شرائط پر عمل کرے گا۔ ایسا اب تک نہیں ہوا ہے، اور ترکی کو اس حوالے سے کام کرنا ہوگا۔‘‘
ترک وزیرخارجہ مولوت چاؤس آؤلو نے پیر کے روز کہا تھا کہ یورپی یونین نے مہاجرین کے بہاؤ کو روکنے کے لیے جو معاہدہ کیا تھا، اس کی مکمل پاس داری کرے، ورنہ ترکی پر بھی اس پر عمل درآمد لازم نہ رہے گا۔
یورپی یونین اور ترکی کے درمیان رواں برس مارچ میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ترک ساحلوں سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو روکنے کے عوض ترکی سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کے باشندوں کے لیے شینگن ممالک کے سفر کے لیے ویزے کی پابندی ختم کر دی جائے گی۔
اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ترکی یونان جانے والے غیرقانونی تارکین وطن کو روکے، جب کہ یونان میں موجود مہاجرین کو واپس لے، جس کے بدلے میں ترکی کو تین ارب یورو کی امداد دی جائے گی، تاکہ وہ یہ سرمایہ اپنے ہاں موجود مہاجرین کی بہبود پر خرچ کر سکے۔
چاؤس آؤلو نے جرمن اخبار فرانکفُرٹر الگمائنے سے بات چیت میں کہا کہ اس معاہدے کے بعد انقرہ حکومت کی جانب سے ٹھوس اور سخت اقدامات اٹھائے گئے، جس کی وجہ سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یورپی یونین جانے والے مہاجرین کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی، ’’مگر یہ پورا معاہدے ہمارے شہریوں کے لیے ویزے کی شرائط کے خاتمے سے نتھی ہے۔ 18 مارچ کے اس معاہدے کا یہ بھی حصہ تھا۔‘‘
پیر کے روز جرمن اخبار میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں آؤلو نے مزید کہا، ’’اگر ویزے کی پابندی ختم نہیں ہوتی، تو ہم بھی مجبور ہو جائے گے کہ مہاجرین کو واپس لینا بھی روک دیں اور 18 مارچ کی یہ ڈیل مکمل طور پر ختم ہو جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’ایسا اکتوبر کے شروع یا وسط تک ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ایک حتمی تاریخ کی بابت سوچ رہے ہیں۔‘‘