پاکستان طالبان کے لیے افغان سرزمین تنگ ہوتی ہوئی
5 دسمبر 2014افغانستان میں پناہ لینے والے پاکستانی طالبان کے مقامی قبائلیوں کے ساتھ تعلقات مسلسل خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اِس مسئلے کو بھی افغان فورسز مؤثر انداز میں استعمال کر رہی ہیں۔ افغان سکیورٹی حلقے تواتر سے خراب ہوتے تعلقات کو ہوا بھی دے رہے ہیں۔
پاکستانی سرحد سے منسلک افغان صوبے کُنڑ کے گورنر شجاع اُلمُلک جلالہ کا کہنا ہے کہ اُن کے صوبے کے ایک ضلع دانگام میں گیارہ بارہ روز قبل مقامی افراد نے پاکستانی طالبان کے خلاف عملی اقدام کرتے ہوئے ایک طرح کی بغاوت پیدا کر دی۔
گورنر شجاع اُلمُلک جلالہ کا مزید کہنا تھا کہ دانگام کے قریبی دیہات کے باسیوں کو افغان پولیس اور فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور انہوں نے پاکستانی طالبان کو علاقے سے باہر نکال دینے کے عمل کا آغاز کیا ہے۔
کنڑ صوبے کے گورنر کے مطابق دیہاتیوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں پاکستانی طالبان کی جانب سے خطرات کا سامنا تھا اور یہ عسکریت پسند افغان فوج پر بھی حملوں سے گریز نہیں کرتے تھے۔ شجاع اُلمُلک جلالہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقامی سینئر افراد کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اچھے اور بُرے پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے اور اسی باعث اِن کو نکال باہر کرنے کی مہم کو شروع کیا گیا ہے۔
پاکستانی طالبان کے ایک کمانڈر نے اِس صورت حال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان فوج نے چند پاکستانی طالبان کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔ عسکریت پسند کمانڈر کے ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ ماضی میں افغان فوج اُن علاقوں کو نظر انداز کرتی تھی جہاں انہوں نے ڈیرہ لگایا ہوتا تھا اور وہ انہیں خوراک دینے سے بھی نہیں کتراتے تھے لیکن اب وہ اُن کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی طالبان کو اپنے ملک میں فوج کے شروع کردہ آپریشن ضربِ عضب کا بھی سامنا ہے۔
دفاعی امور کے بین الاقوامی میگزین جین کے دہشت گردی اور مزحمت کے شعبے کے سربراہ میتھیو ہین مین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دو ماہ کے دوران افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کُل 56 ڈرون حملے گئے اور ان میں سے 30 صرف ستمبر میں ہوئے تھے۔
اِن حملوں میں ایک دو مقامات پر پاکستانی طالبان کی ہلاکت کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے۔ اِن حملوں کی وجہ سے افغان طالبان بھی کئی علاقوں میں فعال نہیں رہے اور پاکستانی طالبان کا حال بھی خاصا خستہ ہے۔ چار پاکستانی طالبان کمانڈروں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ ڈرون حملوں کے علاوہ مقامی قبائلیوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے وہ چھوٹے افغان قصبوں سے پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔