1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن کے پچیس برسوں میں کیا کیا ہوا؟

1 جنوری 2025

سن 2000 کی سال نو کی تقریبات کے موقع پر ہی ولادیمیر پوٹن نگران صدر بنائے گئے تھے۔ ایک اصلاح پسند رہنما کے طور پر روسی صدر بننے والے پوٹن اکیسویں صدی کے سب سے زیادہ طاقتور ’جنگی سردار‘ بن چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ojdI
Moskau Putin Jahrespressekonferenz
تصویر: Kristina Kormilitsyna/SNA/IMAGO

روسی صدر پوٹن پچیس برس قبل نو اگست سن 1999 میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تھے، تب سے وہ اقتدار میں ہیں اور یہ علم نہیں کہ ان کا سیاسی کیریئر کتنا طویل ہو گا؟

سابق سوویت اور روسی سیاسی رہنما بورس یلسن نے نو اگست سن 1999 کو ولادیمیر پوٹن کو روسی  وفاق کا وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ تب صدر کے عہدے پر تعینات بورس یلسن کو شائد علم نہ تھا کہ پوٹن کا اقتدار اتنا طویل ہو گا۔

سوویت خفیہ ایجنسی کے سابق ملازم ولادیمیر پوٹن نو اگست انیس سو ننانوے کو وزیر اعظم بنائے گئے تھے اور اسی سال اکتیس دسمبر کو علیل بورس یلسن نے صدر کے عہدے سے اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پوٹن کو نگران صدر بنا دیا تھا۔

پوٹن نے نیا عہدہ سنبھالتے ہوئے عہد کیا تھا کہ روس دنیا بھر میں ایک 'عظیم طاقت‘ رہے گا۔

سات اکتوبر سن 1952 میں پیدا ہونے والے پوٹن بہتر برس کے ہو چکے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ روس پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ مستقبل قریب تک ان کو سیاسی سطح پر چیلنج کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا۔

سوویت سیاسی و انقلابی رہنما جوزف اسٹالن کے بعد پوٹن سب سے زیادہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے حکمران ہیں۔ اسٹالن نے سن 1924 تا 1954ء سوویت یونین کی قیادت کی۔ ان کی موت ہی انہیں اقتدار سے الگ کر سکی۔ انتقال کے وقت اسٹالن کی عمر 74 برس تھی۔

روس کا خطرہ، فن لینڈ میں فوجی مشقیں

پوٹن کے مختلف چہرے

تاہم اس نہج تک پہنچنے کی خاطر پوٹن نے کئی چہرے بدلے۔ ان کے اقتدار کے آغاز میں مغربی ممالک کو شاید یہ شک نہیں تھا کہ وہ ایک 'جنگی سردار‘ بن کر بھی ابھر سکتے ہیں۔

سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے سن دو ہزار ایک میں سلووینیا میں پوٹن سے ملاقات کے بعد کہا تھا، ''میں نے انہیں بہت سیدھا اور قابل اعتماد پایا ہے۔ ہماری گفتگو بہت اچھی رہی۔ وہ اپنے ملک کے بہترین مفادات چاہتے ہیں۔‘‘

ستمبر 2001 ء میں جرمن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے پوٹن نے یورپی یونین کے ممالک کو روس کے ساتھ سکیورٹی شراکت داری کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے نیٹو کی سرکردہ طاقت امریکہ کے کردار پر سوال اٹھایا لیکن نیٹو اتحاد اور یورپی یونین کا رکن بننے سے انکار نہیں کر دیا تھا۔

یورپی یونین اور روس نے 'اسٹریٹیجک شراکت داری‘  قائم کرنے کے مقصد سے تعاون کے متعدد پروگراموں اور اقدامات پر اتفاق بھی کیا تھا۔ نیٹو نے ماسکو میں ایک دفتر بھی کھولا اور روس نے برسلز میں اس عسکری اتحاد میں ایک مستقل مشن قائم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

اسٹریٹیجک امور پر تبادلہ خیال کے لیے نیٹو۔ روس کی ایک کونسل قائم کی گئی، جس میں وسطی اور مشرقی یورپ کے متعدد ممالک کی طرف سے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔

یورپی یونین کے لیے تیل اور گیس کے اہم سپلائرز ہونے کے باعث روس نے بہت مالی فائدہ بھی اٹھایا۔

ولادیمیر پوٹن 'بے عیب جمہوریت پسند‘

سن 2004 میں جرمن چانسلر گیرہارڈ شروئڈر نے پوٹن کو ایک 'بے عیب جمہوریت پسند‘ سیاستدان قرار دیا تھا حالانکہ اس بات کے شواہد موجود تھے کہ پوٹن مقامی حزب اختلاف اور پریس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ عہدہ چھوڑنے کے بعد شروئڈر کو روس کی سرکاری توانائی کمپنیوں میں منافع بخش عہدے دیے گئے۔

2006ء میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں پوٹن نے اپنے سفارتی نقطہ نظر کو نمایاں طور پر تبدیل کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین نے روس کو ایک بڑی طاقت کے طور پر قبول نہیں کیا ہے اور نیٹو کی توسیع کی خاطر وسطی اور مشرقی یورپی ممالک کو رکنیت دی جا رہی ہے۔

پوٹن نے اس پیش رفت کو اُس یقین دہانی کی خلاف ورزی قرار دیا، جس کے تحت کہا گیا تھا کہ نیٹو اتحاد روسی سرحدوں کے نزدیک طاقت جمع نہیں کرے گا۔ درحقیقت، روس نے سن 1997 میں نیٹو۔ روس فاؤنڈیشن ایکٹ پر دستخط کے ساتھ نیٹو کی اس توسیع پر اتفاق کیا تھا۔

بہانہ بناتے ہوئے روس نے اسلحے میں کمی کے معاہدوں کو ختم کر دیا اور ساتھ ہی ماسکو حکومت نے امریکی میزائل دفاعی نظام پر سخت تنقید کی، حالانکہ اس کی منصوبہ بندی پہلے ہی کی جا چکی تھی۔

اپریل سن 2008 کے سربراہی اجلاس میں نیٹو نے یوکرین اور جارجیا سے وعدہ کیا کہ انہیں اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ اس پیش رفت پوٹن کو انتہائی ناگوار گزری۔

اگست 2008ء میں پوٹن نے جارجیا میں پیدا ہونے والے ایک تنازعہ میں مداخلت کرکے روسی فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ایک مختصر جنگ کے بعد جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ کے علاقے ماسکو کے زیر کنٹرول لے آئے۔

یورپی کمیشن 2013ء تک روس کے ساتھ 'مشترکہ اقتصادی اور ہیومنیٹیرین اسپیس‘  قائم کرنے کے اپنے طویل المدتی وژن پر تبادلہ خیال کرتا رہا، جو 'لزبن سے ولادی ووستوک‘ تک پھیلا ہوا تھا۔

پوٹن ایک ملٹی فرنٹ وار لارڈ

سن 2014 میں ایک عوامی انقلاب کے نتیجے میں یوکرین کے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کو عہدے سے الگ ہونا پڑا، جس کے بعد پوٹن نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔

روس نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا اور کریملن نواز علیحدگی پسندوں کی مدد سے مشرقی یوکرین کے کچھ حصوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔

اس پیش رفت پر امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے ثالثی کی کوشش شروع کر دی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کی کوششوں سے منسک معاہدہ طے پایا، جس سے امن قائم ہونے  کی امید پیدا ہوئی۔ تاہم ایسا کبھی نہ ہو سکا۔

یورپی یونین کے عہدیداروں نے خبردار بھی کیا تھا کہ پوٹن تیزی سے مطلق العنان حکمران بن رہے ہیں۔ سن 2021 میں یورپی کمیشن نے بھی یورپی یونین اور روس کے تعلقات میں خرابی کی نشاہدہی کی لیکن یورپی بلاک نے توانائی کی درآمدات کے لیے ماسکو سے نہ بگاڑی۔

مارچ 2022ء میں روس کی طرف سے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملے کے فورا بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ پوٹن ایک 'جنگی مجرم، قاتل ڈکٹیٹر اور ایک حقیقی ٹھگ‘ ہیں۔

اس وقت سے نیٹو نے پوٹن کے روس کو 'اتحادیوں کی سلامتی اور یورو بحر اوقیانوس کے علاقے میں امن اور استحکام کے لیے سب سے اہم اور براہ راست خطرہ‘ قرار دے دیا تھا۔

یورپی یونین نے روس پر بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کر دیں اور روسی  تیل اور گیسپر انحصار ختم کرنے کی کوششوں میں تیزی لے آئی۔

تاہم یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے تقریباً تین سال بعد بھی یورپی یونین اس مقصد کو مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکی ہے۔

اب بھی یورپی یونین میں مائع قدرتی گیس کا بڑا حصہ روس سے ہی آ رہا ہے۔ تجارت سکڑ گئی ہے لیکن یورپی یونین کی بہت سی کمپنیاں اب بھی روس میں کاروبار کر رہی ہیں کیونکہ خوراک، دواسازی اور کیمیائی صنعتیں ان پابندیوں سے متاثر نہیں ہوئی ہیں۔

پوٹن کے اقتدار سنبھالنے کے 25 سال بعد نیٹو اتحاد خود کو ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کے لیے تیار کر رہا ہے۔ اس اتحاد کا بنیادی مشن اب روس کی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنا ہے۔

بیرنڈ ریگرٹ (ع ب/ ک م)