1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چودہ چوروں‘ نے ساری اپوزیشن کو ’چور‘ بنا دیا

2 اگست 2019

پاکستان میں سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد انتہائی غیر متوقع طور پر ناکام ہو گئی۔ سینیٹ میں اس کارروائی کا منظر اور نتیجے کا پس منظر جانیے اعزاز سید کے اس بلاگ میں۔

https://p.dw.com/p/3NEhm
Blogger Azaz Syed
تصویر: Azaz Syed

یکم اگست، پہلا منظر: سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر راجہ ظفرالحق نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف قرارداد پڑھ رہے ہیں تو ایوان میں موجود اپوزیشن کے 64 ارکان نے کھڑے ہو کر اس قرارداد کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا ہے۔

دوسرا منظر: چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے سینیٹر نعمان وزیر جبکہ اپوزیشن کی طرف سے سینیٹر جاوید  عباسی روسٹرم پر موجود ہیں۔ سیکرٹری سینیٹ بیلٹ باکس سے ایک ایک ووٹ نکالتے ہیں دونوں سینیٹرزکو دکھاتے ہیں اورسامنے موجود ٹوکریوں میں سے کسی ایک میں رکھ دیتے ہیں۔ ایک ٹوکری اپوزیشن کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی ہے، دوسری صادق سنجرانی پراعتماد کا اظہار کرنے والوں کی اورتیسری میں مستردکیے گئے ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ حکومتی بنچوں کی پہلی نشست پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بیٹھے صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں مگر انتہائی پر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ ان کے لیے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کرنے والے قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز بیٹھے ہیں۔ صبح ہی ہماری فون پر بات ہوئی تو شبلی نےدعوٰی کیا تھا کہ حکومت جیت جائے گی۔ 104 کے ایوان میں آپ کے سینیٹرز صرف 35 ہیں آپ جیتیں گے کیسے؟ میرے اس سوال کے جواب میں وہ بولے تھے، ''دیکھنا وقت بتائے گا۔‘‘

تیسرا منظر: سینیٹ کے ایوان میں اس کارروائی کی صدارت کرنے والے بیرسٹر سیف نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی قرارداد کوصرف پچاس ووٹ پڑے ہیں اور یوں سنجرانی کے خلاف تحریک ناکام ہو گئی ہے۔ نتیجے کے اعلان سے پہلے جب ووٹوں کی گنتی ہوئی تو قرارداد کے حق میں صرف 50 ووٹ نکلتے ہیں اور ڈالے گئے ووٹوں میں سے پانچ مسترد بھی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن کے 14 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ ہی نہیں دیے اورغالباﹰ اپوزیشن کے چار سینیٹرز کے ہمراہ کسی ایک حکومتی سینیٹر کاووٹ ضائع بھی ہوا ہے یا جان  کر کیا گیا ہے۔

چوتھا منظر: سینیٹ کے نتائج سامنے آتے ہیں تو اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس بھی جاری ہے۔ میاں شہباز شریف گیلری میں بیٹھے بلاول بھٹو زرداری کے پاس جاتے ہیں اور انہیں سینیٹ میں پیش آنے والے معاملے پر ملنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس پر اپوزیشن کے 60 ارکان سینیٹ، قومی اسمبلی میں اپوزیشن چیمبر میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ یعنی ایوان کےاندر قرارداد کے حق میں 50 ووٹ ڈالنے والوں کے ہمراہ وہ 10 سینیٹر بھی اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقات میں شامل ہیں جنہوں نے ایوان سینیٹ میں کھڑے ہوکر پوری قوم کو دھوکہ دیا۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اپوزیشن کی حکمت عملی کے بارے میں ہونے والی گفتگو کتنی محفوظ ہوگی؟

اب بات ووٹنگ سے ایک روز پہلے کا یعنی بدھ 31 جولائی اور جمعرات یکم اگست کی درمیانی شب کا جب نیب راولپنڈی میں زیرحراست سابق صدر آصف علی زرداری سے زمینوں کے کاروبار سے منسلک ایک معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض  نے ملاقات کی ۔ یہ ملاقات ڈیڑھ دو گھنٹہ جاری رہی۔ پھر کچھ لوگوں نے زرداری کی بہن فریال تالپور سے بھی ملاقاتیں کی۔ آصف زرداری سے اس ملاقات میں یہ کاروباری شخصیت نے کیا باتیں کیں، کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔

سینیٹ می٘ں اپوزیشن کی شکست کے بعد بعض سینیئر لوگ سابق صدر زرداری پر شک کرتے بھی سنائی دیتے ہیں لیکن اصل حقیقت کیا ہے؟ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

ووٹ چوری کا ایک الزام مسلم لیگ نون کے بعض سینیٹرز پر لگایا جا رہا ہے ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں زیادہ ووٹ پیپلزپارٹی کے نہیں مسلم لیگ نون کے چوری ہوئے ہیں۔ شہباز شریف پر ووٹ چوروں سے رابطوں کا الزام تو پرانا ہے وہ بھی رات کی تاریکی میں بڑی شخصیات سے ملتے ہیں۔ 

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہر کوئی ہر کسی پے شک کر رہا ہے، سچ یہ ہے کہ ان 14 چوروں نے ساری اپوزیشن کو چور بنا دیا ہے اور پارلیمینٹ اور سیاستدانوں کے بارے میں بکاؤ ہونے کا تاثر مزید گہرا ہوگیا ہے۔

جوسیاسی رہنما پیسے لے کر سینیٹ کی ٹکٹیں دیتے رہے انہیں یہ دن دیکھنا ہی تھا کیونکہ ہمارے سیاستدانوں نےسیاسی کارکنوں کی بجائے پیسے والوں کو اہمیت دی۔ نتیجے میں بکاؤ لوگوں کی ایک بڑی کھیپ سینیٹ میں آگئی پھر جو ہوا، ایسا ہی ہونا تھا۔

پہلے اور آج میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اپوزیشن جماعتیں یہ سب کام کرتی تھیں اب تحریک انصاف نے بھی اس حمام میں کپڑے اتار دیے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔