’کاش ہماری بھی قدر ہوتی‘ فلسطینی وکیل راجی سورانی
26 جولائی 2014ڈوئچے ویلے کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے شہری راتوں کو جاگتے رہتے ہیں۔ ان کے بقول ایک تو شدید بمباری تو دوسری جانب غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے، جہاں پناہ لی جا سکے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ فضا میں ہر وقت ڈرون اور جنگی طیارے دکھائی دیتے ہیں۔ سورانی کے بقول اس وقت دنیا کی بہترین فضائیہ، جدید ترین آلات کی مدد سے غزہ پر حملے کر رہی ہے اور یہ بمباری ایسے ہی صرف خوف زدہ کرنے یا تفریح کے لیے نہیں بلکہ یہ بم ہلاک کرنے کے لیے گرائے جا رہے ہیں۔’’ انہوں نے معاہدے پر کیوں دستخط کیے تھے اور اب بیس سال بعد بھی ہمیں جنگ کا سامنا ہے۔ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں، تباہی ہو رہی ہے، ہم مصیبت میں ہیں۔ ہم حواس کھو چکے ہیں ہماری کوئی قدر و قیمت نہیں ہے‘‘۔
سورانی نے مزید بتایا کہ ان کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق اب تک زخمی ہونے والوں میں سے ستتر فیصد عام شہری ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں میں بھی عام شہریوں کی بڑی تعداد ہے۔ غزہ کے شہری بیمار ہو چکے ہیں اور حالا ت سے اکتا بھی چکے ہیں۔ عوام سوچ رہے ہیں کہ اب کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے۔ یا تو صورتحال اچھی ہو جائے ورنہ مر جانا ہی بہتر ہے۔ اس تنازعے کو کس طرح سے حل کیا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں سورانی کا کہنا تھا کہ اس کا جواب بہت واضح ہے ’’اسرائیل اپنا قبضہ ختم کرے، بس اسی کی ضرورت ہے۔ وہ اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ تسلط کے دوران کس طرح انصاف و عدل کی بات کی جا سکتی ہے‘‘۔
راجی سورانی کے بقول تین یہودی نوجوانوں کے قتل کی ذمہ داری کسی بھی فلسطینی گروپ نے قبول نہیں کی ہے اور اس واقعے کے بعد اسرائیل کوئی تیرہ سو افراد کو گرفتار کر چکا ہے اور اس میں فلسطینی پارلیمان کے 28 ارکان بھی شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل نے تعلیمی اداروں اور حکومتی مراکز کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے غزہ کے گنجان آباد علاقے میں اٹھارہ سو فضائی حملے کیے ہیں۔ یہ اسرائیل اور عالمی برادری کے لیے شرم کا مقام ہے۔ سورانی کے بقول لوگوں کو اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آٹھ سال قبل غزہ کے باسیوں کو اجتماعی طور پر سزا دی گئی۔ سورانی کے بقول اسرائیل نے غزہ کا گلہ گھوٹ دیا ہے اور اسے ناقابل رہائش اور ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ غزہ میں بے روزگاری کی شرح 65 فیصد ہے اور نوے فیصد افراد سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ غزہ میں صاف پانی، نکاسی آب، بجلی سمیت کوئی بھی سہولت معیاری انداز میں دستیاب نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے وکیل راجی سورانی کے بقول غزہ پٹی کا زوال اس وجہ سے نہیں کہ یہاں کے شہری کاہل اور مجرم ہیں۔ ان کے بقول وہ ایک فلسطینی ریاست نہیں چاہتے تاہم ایک عام پرامن زندگی کے خواہاں ہیں اور وہ اسرائیلی تسلط کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
راجی سورانی چھ مرتبہ جیل بھی جا چکے ہیں۔ فلسطین میں قائم ان کا مرکز مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی تحقیقات کرتا ہے۔ انہوں نے ان حالات میں بھی غزہ میں رہنے اور اپنا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔