کراچی ایئرپورٹ پر حملہ: ’دہشت گرد، سکیورٹی فورسز سے زیادہ منظم‘
10 جون 2014ماہرین کے مطابق سکیورٹی اداروں کی ناکامی کے علاوہ یہ پالیسی سازوں کی طرف سے مناسب اقدامات نہ کیے جانے کا بھی اظہار ہے۔
پاکستان میں شاید کسی کو بھی طالبان کی طرف سے کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت پر کوئی شبہ نہیں رہا تھا کیونکہ سخت گیر اسلامی نظریات کی حامل اس تنظیم کے دہشت گرد ماضی میں بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں فوجی اور اہم تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ لیکن شاید کسی نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ دہشت گرد سخت سکیورٹی کے حامل کراچی ایئرپورٹ پر اس طرح حملہ بھی کر سکتے ہیں۔ اسی حملے پر ایک پاکستانی ٹوئیٹر صارف کی تنقید کچھ یہ تھی، ’’ہر چیز پر نظر رکھنے کا دعویٰ کرنے والی ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟ یہ شاید خود پر تنقید کرنے والے نیوز چینلز اور فیس بُک پیجز پر پابندی لگوانے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے میں مصروف تھیں۔‘‘
پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان کئی ماہ تک جاری رہنے والے امن مذاکرات کی کامیابی شروع سے ہی مشکوک تھی۔ بالآخر طالبان کی جانب سے حملے جاری رہنے اور فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بعد قریب ایک ماہ قبل مذاکرات کا سلسلہ بھی تمام ہو گیا۔
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے چند گھنٹوں بعد اپنے ایک بیان میں کہا، ’’حملے کا بڑا مقصد جہاز اغوا کرنا اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچا کر ملکی حکومت کو زَک پہنچانا تھا۔‘‘ اس بیان میں طالبان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حملہ محض ایک مثال ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں اور یہ کہ ابھی مزید بہت کچھ ہو گا۔ شاہد اللہ شاہد نے دھمکی دی کہ حکومت کو اس سے بھی بڑے حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
پاکستانی حکام کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طالبان کمزور ہیں اور دھڑوں میں بٹ چکے ہیں۔ تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار عبدالستار کے مطابق اسلامی شدت پسندوں نے ’دنیا کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ابھی زندہ اور متحرک ہیں اور مرضی کے مطابق کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں‘۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی دستاویزی فلم ساز سبین آغا کہتی ہیں کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان سکیورٹی ایجنسیوں کے مقابلے میں زیادہ منظم ہیں اور زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ چند ایک دہشت گردوں نے 13 گھنٹوں تک پاکستان کو باقی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔‘‘
پاکستان کے انگریزی زبان کے اہم اخبار ڈان کے ایک سابق مدیر سلیم عاصمی کا خیال ہے کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کے نقطہ نظر کو متاثر کرتے ہوئے حکومت پر امن مذاکرات بحال کرنے کے لیے دباؤ ڈلوایا جائے۔