کریمہ بلوچ کی تدفین کر دی گئی
25 جنوری 2021تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کریمہ بلوچ کے جنازے کے موقع پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائی گئی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ بلوچ قوم پرست رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کریمہ بلوچ کے جنازے میں شرکت کرنے کے خواہشمند بلوچ سیاسی کارکنوں کو تربت سے آگے جانے نہیں دیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینیڈا سے پاکستان پہنچنے پر کریمہ بلوچ کی لاش کا تابوت فوری طور پر اہل خانہ کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے کئی افراد نے سوشل میڈیا پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ پشتون افراد کے حقوق کی سرگرم تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے ٹوئٹر پر کہا،’’یہ دیکھنا ہولناک ہے کہ کریمہ بلوچ کے جسد خاکی کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کیسے اس سے دوریاں مزید گہری ہوں گی اور علیحدگی پسندی کو ہوا ملے گی۔ کیا بلوچ بغاوت سے نمٹنے کا یہ طریقہ ہے، کہ بلوچوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جائے۔‘‘
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور پاکستانی فوج کے ناقد افراسیاب خٹک نے ایک ٹویٹ میں کہا، '' کریمہ بلوچ کے آبائی علاقے تمپ میں کرفیو نافذ کرنے ( اکبر بگٹی کے جنازے پر بھی ایسا ہی کیا گیا تھا) کا اقدام نو آبادیاتی سوچ کا عکاس ہے، وہ لوگ جو افغانستان میں دہشت گردوں کے ساتھ سمجھوتے کا اصرار کرتے ہیں بلوچ قوم پرستوں کی لاشوں کا احترام کرنے پر تیار نہیں۔ ایک سیاسی معاملے کا عسکری حل نہیں ہو سکتا ہے۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا، ''جب سے اکبر بگٹی کی لاش کی بے حرمتی کی گئی تب سے بلوچستان بد امنی کا شکار ہے۔ بد امنی اور مذاحمت کاری اب تک ختم نہیں ہوئی۔ کریمہ بلوچ کی لاش کی بے حرمتی کا اثر دیکھا جائے گا۔ زخموں کا مرہم کیا جائے پیشتر اس کے کہ تاخیر ہو جائے۔‘‘
کینیڈا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والی سینتیس سالہ بلوچ سیاسی رہنما کریمہ بلوچ کی لاش ٹورانٹو شہرکے ڈاؤن ٹاؤن کے ایک پانی کے تالاب سے ملی تھی۔ انہیں سن 2016 میں کینیڈین حکومت نے سیاسی پناہ دی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ مرحومہ بلوچ رہنما صوبہ بلوچستان میں خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر ناقدانہ آواز بلند کرتی رہتی تھیں۔