کوئٹہ میں خواتین کے عملے پر مشتمل پہلا ریسٹورنٹ
18 اکتوبر 2017حمیدہ علی نے کوئٹہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جہاں وہ رہتی ہیں وہاں عورتوں کا گھروں سے نکلنا عام نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا،’’ بہت سی عورتوں کو گھر وں سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی، میں چاہتی تھی کہ عورتوں کو گھروں کی دیواروں سے باہر نکالوں اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کروں۔‘‘
حمیدہ نے تین ماہ قبل کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ’ہزارہ ریسٹورنٹ‘ کا آغاز کیا تھا۔ حمیدہ بتاتی ہیں کہ اس کاروبار کا آغاز کرنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ انہوں نے بتایا،’’ میں کافی عرصے سے پیسے جمع کر رہی تھی۔ مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کام کے بجائے عورتوں کے لیے چندہ جمع کر لیتی۔ کچھ نے کہا کہ کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بیٹھ جاتی۔کچھ نے کہا کہ عورت کا کاؤنٹر پر بیٹھنا ’بے غیرتی‘ ہے۔‘‘ حمیدہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اس منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچایا۔
ہزارہ ریسٹورنٹ میں کل سات خواتین کام کر رہی ہیں، جو کھانا پکاتی بھی ہیں اور گاہکوں کو کھانا پیش بھی کرتی ہیں۔ حمیدہ نے بتایا کہ انہوں نے اشیائے خورد ونوش خریدنے کے لیے دو مردوں کو ملازمت دی ہوئی ہے۔
کیا عورتیں ان کے ساتھ کام کرنے پر آسانی سے تیار ہو گئی تھیں ؟ اس سوال جواب دیتے ہوئے حمیدہ نے کہا، ’’عورتوں کو سہارا چاہیے تھا۔ اب یہ خواتین گھر سے باہر نکل کر کام کر رہی ہیں۔ جو گاہک کھانا کھانے آتے ہیں، وہ حیران ہوتے ہیں اور انہیں یقین نہیں آتا کہ اس جگہ صرف خواتین نہیں بلکہ مرد بھی کھانا کھانے آسکتے ہیں۔‘‘
حمیدہ نے بتایا کہ یہاں خانسامہ خواتین مختلف طرح کے کھانے پکاتی ہیں۔ اس ریسٹورنٹ کی سب سے زیادہ پسند کی جانی والی ڈش ہزارہ کمیونٹی کی روایتی ڈش ’آعش‘ ہے۔ اس کھانے میں آٹے کے نوڈلز کے ساتھ دالیں، لوبیا، پالک اور دہی ڈالا جاتا ہے۔ یہ ہزارہ کی ایک ایسی خاص ڈش ہے، جسے بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں۔
حمیدہ بتاتی ہیں کہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جب لوگوں نے یہاں کام کرنے والی خواتین کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کھانا پیش کرنے والی خواتین کو زیادہ ٹپ بھی دی۔ لیکن ان خواتین کو مشکل حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حمیدہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کھانا پیش کرنے والی خواتین کو تلخ جملے بھی سننے کو ملے ہیں۔ کچھ گاہکوں نے کہا کہ تم عورتوں کے گھروں کے مرد ’بے غیرت‘ ہیں جنہوں نے اپنے گھروں کی عورتوں کو گھر سے باہر بھیجا ہے۔‘‘
ہزارہ ریسٹورنٹ میں خواتین گاہک بھی بہت شوق سے آتی ہیں۔ حمیدہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’بہت سی عورتیں جو شام میں خریداری کرنے بازار آتی ہیں وہ اکثر ہمارے ریسٹورنٹ میں آجاتی ہیں۔ اسی طرح طالبات بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ یہاں دیر تک بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔‘‘
حمیدہ کوئٹہ میں ’حرمت نسواں فاؤنڈیشن‘ بھی چلاتی ہیں اور عورتوں کی کھیلوں میں شمولیت، تعلیم اور صحت کے حوالے سے کام بھی کرتی ہیں۔ حمیدہ نے ڈی ڈبلیو سے اپنی جدوجہد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جب تک آپ خود قدم نہیں بڑھائیں گی تو کوئی آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔‘‘ حمیدہ کہتی ہیں کہ آپ کے لیے مسائل پیدا کیے جائیں گے لیکن، ’’ اگر ہم پر عزم رہیں، تو سب کچھ حاصل کرنا ممکن ہے۔‘‘