کوڑے کرکٹ سے بنے خوبصورت مجسمے
اس آرٹ منصوبے کے تحت ساحلوں پر پھیلا پلاسٹک کا کچرا جمع کیا جاتا ہے اور پھر اسے خوبصورت مجمسموں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد سمندری آلودگی کے خلاف شعور بیدار کرنا ہے۔
آرٹسٹ کارکن
ان گنت رنگین اشیاء سے بنی ایسی طوطا مچھلی روزانہ دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یہ ان متعدد خوبصورت مجسموں میں سے ایک ہے، جو تنظیم ’’واشڈ ایشور‘‘ (دھلے کنارے) کی طرف سے بنائے گئے ہیں۔ امریکی ریاست اریگون میں شروع کیے گئے اس منصوبے کا مقصد آرٹ سے کچھ زیادہ ہے۔
سینکڑوں ٹکڑے
جب ان بڑے مجسموں کو قریب سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رنگین مجسمے سینکڑوں بے فائدہ ٹکڑوں کا مرکب ہیں۔ کھلونے، دانتوں کے برش، بوتلیں، ٹائر، سینڈل، ٹوکری، یر طرح کی چیزیں استعمال کی گئی ہیں اور یہ سبھی اریگون ساحل سے ملی ہیں۔
ترتیب سے رکھیے
پلاسٹک کے ٹکڑوں کو آرٹ میں تبدیل کرنے سے پہلے تمام مواد کو جمع کیا جاتا ہے، دھویا جاتا ہے اور پھر رنگوں کے لحاظ سے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ساحل سے ملنے والا 17 ٹن کوڑا استعمال میں لایا جا چکا ہے۔
مرکزی آرٹسٹ
انجیلا ہیزلٹائن پوسی (تصویر میں بائیں طرف) ’دھلے کنارے‘ نامی اس مشترکہ منصوبے کی مرکزی آرٹسٹ ہیں۔ مجسموں کے ڈیزائن یہی بناتی ہیں اور پھر ایک ایک ٹکڑا جوڑا جاتا ہے۔
آرٹ کا سبق
ہر عمر کے رضاکار اس تخلیقی عمل کا حصہ ہیں کیوں کہ یہ بھی مجسموں کے حصے جوڑتے ہیں۔ اس عمل میں حصہ لینے کی وجہ سے بہت سے ذہنوں میں نئے خیال آتے ہیں اور وہ کوڑے کرکٹ سے کوئی نئی چیز تخلیق کرنے کا سوچتے ہیں۔
شعور بیدار کریں
ان مجسموں کی نمائش آہستہ آہستہ امریکا کے دیگر شہروں میں بھی کی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو پلاسٹک کے ذریعے سمندری آلودگی اور سمندری ماحولیاتی نظام پر اس کے اثرات سے آگاہ کرنا ہے۔ نمائش میں کم از کم پندرہ مجسمے رکھے جاتے ہیں۔
لوگوں پر اثر
انجیلا ہیزلٹائن پوسی کہتی ہیں کہ مجسموں کو بڑا بنانے کا مقصد لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ وہ پلاسٹک پھینکنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ اس کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ زیادہ تر مجسمے ساڑھے چار میٹر لمبے اور تین میٹر اونچے ہیں۔
آپ بھی پیروی کیجیے
ہیزلٹائن پوسی امید کرتی ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے ’دھلے کنارے‘ ایسے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کی جا سکے گی اور یہی ان کا مقصد ہے۔