1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گابرئیل گارسیا مارکیز: طلسماتی دنیا کا حقیقت نگار

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین
26 دسمبر 2024

سال 2024 کے آخری مہینے میں نیٹ فلیکس نے معروف ناولسٹ گارسیا مارکیز کے ناول "تنہائی کے سو سال" پر مبنی ایک سیریز پیش کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4oaaJ
DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
تصویر: privat

جب ایک انسان کو اپنی موت قریب آتی محسوس ہو، تو وہ کس حد تک تنہائی کی گہرائیوں میں پہنچ چکا ہوتا ہے؟ اس لمحے وہ ان تمام لوگوں کو تلاش کرے گا جنہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے اس کی تنہائی کو کم کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ کیا ہمیں اس دنیا میں صرف ایک دوسرے کی تنہائی دور کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے؟

اس سوال کا جواب شاید لاطینی امریکہ کے مشہور ناول نگار گابرئیل گارسیا مارکیز کے پاس ہو، یا یوں کہا جائے کہ اس نے اپنی کہانیوں کے ذریعے، بغیر اس موضوع کا ذکر کیے، بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ وہ اپنے نانی نانا کے گھر میں اکیلا بچہ تھا، اور شاید یہی تنہائی اس کی مشہور ترین کتاب "تنہائی کے سو سال" کی تخلیق کا سبب بنی۔

کہانی کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے کہ حوزے آرکادیو بوئندیا، اپنے ساتھیوں اور خاندان کے ساتھ پہاڑوں کو عبور کرتے ہیں، تاکہ سمندر تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر سکیں۔ 26 مہینے کی مسلسل کوشش کے بعد وہ اس مہم کو ترک کر دیتے ہیں اور ماکوندو نام کا ایک نیا شہر آباد کرتے ہیں تاکہ واپس جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ مہم ایک نئے شہر کی تخلیق کی بنیاد بن جاتی ہے، جہاں سے اس کہانی میں پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔

گارسیا مارکیز نے تاریخ، حقیقت اور روایات کو طلسمی حقیقت نگاری میں یکجا کر کے اس کہانی کو ایک منفرد رنگ دیا۔ "تنہائی کے سو سال" کی گہرائیوں میں لاطینی امریکہ کی ثقافت، سیاست اور انسانوں کے جذبات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جو اتنی گہری اور اثر انداز ہے کہ اسے انسانیت کے تجربات کو سمجھنے کا ایک نیا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔

1982 میں انہیں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ میں نے محض لاطینی امریکہ میں روزمرہ کی حقیقت کی عکاسی کی ہے۔ میں کچھ تخلیق نہیں کرتا، وہ کہتے تھے لوگ ہمیشہ میری تخیل کی تعریف کرتے ہیں مگر میں ایک بہت بڑا حقیقت پسند ہوں۔ جو کچھ بھی میں نے تخلیق کیا وہ پہلے ہی حقیقت میں موجود تھا۔

"تنہائی کے سو سال" لکھتے وقت میں بس اپنے بچپن کی تصویر چھوڑ جانا چاہتا تھا جہاں میری بہن جو مٹی کھایا کرتی تھیں، میری نانی مستقبل کی پیش گوئیاں کیا کرتی تھیں اور یکساں ناموں والے بہت سے رشتے دار تھے جو مسرت اور دیوانگی میں تفریق نہیں کر پاتے تھے۔ مارکیز کہتے تھے کہ مجھے فینٹسی سے نفرت ہے کیونکہ میں تخیل کو حقیقت کی تخلیق کا ذریعہ سمجھتا ہوں، اور یہ کہ تخلیق کا سرچشمہ، آخری تجزیے میں، حقیقت ہی ہے۔

اس سال کے آخری مہینے میں نیٹ فلیکس نے تنہائی کے سو سال پر مبنی ایک سیریز پیش کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب گارسیا مارکیز کے خاندان نے، جن کے پاس اس ناول کے کوپی رائٹ ہیں، اسے اسکرین پر پیش کرنے کی اجازت دی، حالانکہ مارکیز خود سینیما میں اپنی تخلیقات ڈھالنے کے حق میں نہیں تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کے کاموں کی حقیقت، خاص طور پر ان کی جادوی حقیقت پسندی، کو فلمی صورت میں مکمل طور پر پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے بیٹے، رودریگو گارسیا نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یہ تصور نہیں کر پاتے تھے کہ انگریزی بولنے والے اداکار بوئندیا اس خاندان میں اہم کردار ادا کریں، جو ناول کا مرکزی خاندان ہے۔ اسی طرح وہ اس عظیم داستان کو دو، تین یا چار گھنٹوں میں سمو کر پیش کرنے کا تصور بھی نہیں کر پاتے تھے۔

میں نے تنہائی کے سو سال کورونا وبا کے دوران پڑھا اور حال ہی میں نیٹ فلیکس کی سیریز بھی دیکھی۔ اس سیریز کو دیکھ کر یہ واضح ہو گیا کہ مارکیز کے تخیل کو بہت خوبصورتی سے اسکرین پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے منظرنامے، جذبات اور پیچیدگیوں کو شاندار طریقے سے پکڑا ہے۔ سیریز دیکھنے کے بعد دوبارہ ناول پڑھنے کا دل کیا، تو میں نے اس کا اردو ترجمہ اٹھایا، جس میں زینت حسام نے کہانی کے اصل جوہر کو بخوبی پیش کیا ہے۔

 

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26