ہاں! الجزائز کے باشندوں کا قتل عام ہوا تھا، اولانڈ
18 اکتوبر 2012فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے تسیلم کیا ہے کہ 1961ء میں پیرس میں الجزائر کے باشندوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اس طرح انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اس تاریک ترین واقعے پر پہلی مرتبہ خاموشی توڑی ہے۔ فرانسوا اولانڈ الجزائر کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں اور ان کا یہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
الجزائر فرانس کی نو آبادی رہا ہے۔ فرانس نے 18ویں صدی میں الجزائر پر قبضہ کیا تھا اور یہ قبضہ 132 سال بعد یعنی 1962ء میں ختم ہوا۔ اس دوران الجزائر میں آزادی کے لیے شروع ہونے والی تحریک فرانس تک پہنچ گئی تھی۔ فرانس میں مقیم الجزائر کے باشندوں نے اکتوبر 1961ء میں آزادی کے حق میں ایک ریلی نکالنے کا اعلان کیا۔ اس وقت پیرس میں رات کا کرفیو نافذ تھا۔ اسی وجہ سے پیرس پولیس کے سربراہ ’ Maurice Papon‘ نے اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ کرفیو کی خلاف ورزی کوکسی صورت بھی برداشت نہ کیا جائے۔ تاریخ دانوں کے بقول فرانسیسی پولیس نے مظاہرین کو تشدد کے ذریعے منتشرکرنے کے لیے فائرنگ بھی کی۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے متعدد مظاہرین کو پیرس کے دریائے سین میں بھی پھینک دیا تھا۔ تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس واقعے میں200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اُس وقت سرکاری اعداوشمار کے مطابق سترہ اکتوبر کی شام صرف تین افراد ہلاک جبکہ 64 زخمی ہوئے تھے۔ بعد ازاں تحقیقات کے دوران دریائے سین سے متعدد لاشیں نکالی گئیں تاہم اس کے باوجود بھی کسی بھی فرانسیسی حکومت نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ فرانسوا اولانڈ اس واقعے کو قتل عام قرار دینے والے پہلے فرانسیسی سربراہ مملکت ہیں۔
فرانسیسی صدر نے کہا ’’ فرانسیسی ریاست ان حقائق کو تسلیم کرتی ہے کہ1961ء میں الجزائر کے باشندوں کے مظاہرے کو پرتشدد انداز میں ختم کیا گیا تھا‘‘۔ تاہم قدامت پسند ’UMP‘ جماعت کے کرسٹیان جیکب نے کہا کہ سترہ اکتوبر1961ء کے واقعات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اور اس میں مرنے والوں کو فراموش بھی نہیں کیا جا سکتا ’’ لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ اس کا ذمہ دار ملک کی پولیس اور پوری قوم کو ٹھہرایا جائے‘‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے حوالے سے تیار کی جانے والی فائلوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد اور دیگر حقائق کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ 1961ء کے بعد کئی سالوں تک حکومت نےکتابوں میں اس واقعے کا تذکرہ کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی اور ساتھ ہی سترہ اکتوبر کی رات کو لی جانے والی کئی تصاویر کو بھی چھاپنے کی اجازت نہیں تھی۔
ai / ia (Reuters)