ہمارا سورج: گرم گیسوں کا گولہ
کائنات میں ہمارے سورج جیسے اربوں ستارے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج کے بغیر زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں تھا۔ سورج کے بارے میں صدیوں سے تحقیق کی جا رہی ہے۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
آگ کا قدیمی گولہ
زمین پر انسانی وجود سے بھی اربوں برس پہلے سے سورج جگمگا رہا ہے۔ نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے ہمراہ 4.6 بلین برسوں قبل سورج گیسوں کے بادلوں کے سبب وجود میں آیا۔ ماہرین کے مطابق آئندہ پانچ بلین سالوں تک سورج کا وجود قائم رہے گا جس کے بعد اس کی توانائی ختم ہو جائے گی۔
توانائی پر تحقیق کرنے والوں کی توجہ کا مرکز
سورج بنیادی طور پر ایک بڑے ایٹمی ری ایکٹر کے مانند ہے۔ اس کے مرکز میں درجہ حرارت اور دباؤ اس قدر شدید ہےکہ ہائیڈروجن کے ایٹم ضم ہو کر ہیلیم کے ایٹم بن جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔
زمین سے سو گنا بڑا
زمین سے دیکھتے ہوئے سورج اتنا بڑا دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کا نصف قطر یا رداس سات لاکھ کلو میٹر ہے۔ سورج کے مرکز میں درجہ حرارت پندرہ ملین ڈگری سیلسیئس سے بھی زیادہ ہے جب کہ سطح پر سورج کا درجہ حرارت ساڑھے پانچ ہزار ڈگری ہے۔
اربوں میں ایک
خلا میں چمکتے ستاروں کے مرکز میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارا سورج بھی کائنات میں موجود ایسے ہی اربوں ستاروں میں سے ایک ہے۔ دوسرے ستاروں کے مقابلے میں سورج درمیانے حجم کا ستارہ ہے۔ کائنات میں ان گنت ستارے سورج سے سینکڑوں گنا بڑے بھی ہیں۔
سطح پر دکھنے والی بے چینی
سورج کے اندر سے نکلنے والا انتہائی روشن اور گرم مادہ سطح پر پہنچنے کے بعد ٹھنڈا ہو جاتا ہے تاہم درجہ حرارت کم ہوتے ہی واپس مرکز کی جانب مڑ جاتا ہے۔ کائنات میں صرف سورج ہی وہ واحد ستارا ہے جس کا ماہرین اتنی باریک بینی سے تجزیہ کر پائے ہیں۔
جادوئی سیاہ دھبے
سورج کی سطح پر سیاہ دھبوں کا مشاہدہ قبل از مسیح کے زمانے سے کیا جا چکا ہے۔ گیلیلیو کی تحریروں میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔ گزشتہ وقتوں کے انسانوں کے لیے یہ حیرت انگیز مشاہدے تجسس کا سبب تھے۔ لیکن اب ہم جان چکے ہیں کہ انتہائی مضبوط مقناطیسی میدان ان سیاہ دھبوں کا سبب بنتے ہیں۔
خطرناک طوفان
جب سورج پر سرگرمی بڑھ جائے تو ’جیو میگنیٹک‘ طوفان پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت سورج سے بڑی مقدار میں ’چارج شدہ‘ ذرات خلا میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ ذرات خلا میں موجود سیٹلائٹس کو تباہ کر سکتے ہیں اور زمین پر بھی پاور اسٹیشنز کو متاثر کر سکتے ہیں۔
جب آسمان دمکتا ہے
ایسے ہی طوفان ایک دلفریب منظر کا سبب بنتے ہیں اور آسمان دمک اٹھتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے کہ چارج شدہ ذرات زمین کے کرہ ہوائی سے ٹکراتے ہیں۔ اس مظہر کو ’پولر روشنی‘ کہا جاتا ہے۔
لیکن یاد رکھیے!
سورج گرہن کو کبھی ننگی آنکھ سے مت دیکھیے۔ سورج اس وقت بھی انتہائی روشن ہوتا ہے جب چاند اس کے سامنے آ چکا ہو۔ خاص طرح کی عینک پہنے بغیر سورج گرہن دیکھنے سے بینائی جا سکتی ہے۔