1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمارا مسئلہ قبولیت سے زیادہ مقبولیت کیوں؟

27 فروری 2021

کیا ہم سماجی طور پر نمود و نمائش کی اس حد سے بھی پرے ہیں جہاں ایک لباس کو دوسری مرتبہ پہن لیا جائے، تو جیسے ہمارے سماجی مرتبے میں کمی آ جاتی ہے؟

https://p.dw.com/p/3q0CR
DW Urdu Blogger Manha Haider
تصویر: Privat

ابھی کچھ دن پہلے ایک  خاندانی تقریب میں شرکت کی تو ایک رشتہ دار خاتون نے سر سے پاؤں تک جائزہ لینے کے بعد کہا کہ ارے یہ وہی جوڑا نہیں جو تم نے دوسال پہلے فلاں کے عقیقے میں بھی پہنا تھا ۔مجھےخاتون کی یادداشت پہ رشک آیا اور جواب ملنے کی مہلت سے قبل ہی خاتون نے اپنا موبائل کھول کر مجھے کوئی بیسیوں برانڈز کی سیل کے بارے میں اپڈیٹ کرتے ہوئے از راہ ہمدردی یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ  دیکھو آج کل اتنے اتنے فیصد سیل چل رہی ہے ۔تم بھی برانڈز کے پیجز لائک کرکے اپنا نمبر رجسٹر کروا دو تاکہ اس طرح کے فنکشنز میں تمہیں دوبارہ وہی کپڑے پہننے پر خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اب ان کے اس بیان پر میں نے بہت کوشش کی کہ میں وہ خفت محسوس کر سکوں جس کا وہ ذکر کر رہی ہیں ،پر ڈھٹائی کا عالم دیکھیے کہ رتی برابر بھی محسوس نہ ہوئی۔ ڈھٹائی کے علاوہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے ہر مباحثے کے جوابات رات شیشے کے سامنے دانت برش کرتے ہوئے یاد آتے ہیں، اب خاتون کی بات کے ساتھ یاد آیا کہ اگر گھر میں واشنگ مشین موجود ہو تو کپڑے دھو کر دوبارہ پہن لینے میں ایسی کیا قباحت ہے۔

کیا مہنگی شادیاں کامیاب ازدواجی زندگی کی ضامن ہیں؟

انڈر ویئر کے خاص فیبرک سے چہرے کے ماسک تیار ہوں گے

بچپن میں  عید پر نانی اماں ہم بہنوں، خالہ زاد اور ماموں زاد بہنوں کے لیےایک ہی، رنگ اور ڈیزائن کے کپڑے بناکر ہمیں  پہنایا کرتی تھیں اور ہم خوشی اور فخر سے وہ یونیفارم پہن کر اتراتے پھرتے تھے۔ وقت گزرتے ساتھ سب کے مزاج میں سنجیدگی، پختگی اور کلاس آگئی، جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپط کے کپڑوں جیسا پرنٹ یا ڈیزائین کسی اور نے پہن لیا ہے تو گویا اس نے سیدھا آپ کی انفرادیت کو چیلنج کر مارا ہے اور اس انفرادیت کو برقرار رکھنے کا بیڑا نامی گرامی برینڈز نے اٹھا لیا۔ بس یہ وہ مقام تھا جہاں ہماری 'کنزیومر  زومبی‘ والی خصلت کھل کر سامنے آئی۔کیا آپ نے انٹرنیٹ پر برینڈ سیل اوپننگ کی وہ ویڈیوز دیکھی ہیں جہاں دروازہ کھلتے ہی عوام کا جم غفیر کپڑوں کے اسٹاک پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ بس قارئین کو اس منظر تک لانا مقصود تھا اور کیاکبھی سوچا ہے کہ اس بے صبری ندیدے پن کے پس منظر میں کیا سوچ ہے؟

میری تحریر کا مقصد بالکل بھی برینڈز کی مخالفت نہیں ہے، پر ہماری اس نفسیات پہ سوال ضرور ہے جو اسٹیٹس سیمبل کے امیج کو قائم رکھنے کے لیے اندھا دھند اس دوڑ کا حصہ ہے۔ دو برس قبل میری کلاس  میں ایک جمعے کو حاضری غیر معمولی طور پر کم رہی، پیر والے دن کو پوچھنے پر پتہ چلا کہ ماؤں نے بلیک فرائیڈےسیل پر شاپنگ کی غرض سے بچوں کو اسکول سے چھٹی کروائی ہے۔ تب وقتی طور پر یہ بات عجیب لگی کہ سیل اس قدر اہم  بھی ہوسکتی ہے، بہرحال  مجھے لگا وقتی اثر ہے اور ختم ہوجائے گا لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا۔ اسکول وین، اسٹاف روم، سوشل گیدرنگز، غرض یہ کہ ہر محفل میں80 فیصد اسی قسم کے موضوعات زیر بحث رہتے ہیں اور بد قسمتی سے میں انسانوں کی اس قسم سے تعلق رکھتی ہوں جن کو ڈوپامین جیسا ہارمون شاپنگ کی خوشی کی وجہ سے نہیں لوگوں سے جڑنے اور دیگر مسائل اور ان کے حل پر بات کرنے سے ملتا ہے۔

آج کا انسان اس قدر تکلیف میں اس لیے ہے کہ وہ بھول چکا ہے کہ انسان محبت کے لیے پیدا کیاگیا اور چیزیں برتنے کے لیے، جب کہ ہم نے چیزوں سے محبت پال کر انسانوں کو برتنا شروع کر دیا ہے۔کسی بھی انسان کی قدر فقظ اس کی ملکیت یا اردگرد موجود اشیاء یا سماجی حیثیت کے وجہ سےکرنا ایک عجب سی  غلامی ہے اگر آپ ابھی بھی اس سماجی دباؤ کی زد میں نہیں  آئے تو  فی الحال آپ ابھی آزاد ہیں۔ شاپنگ برانڈز ہماری سہولت کے لیے بنائے گئے نہ کہ ہمیں محتاج یا دوسروں کو کم مائیگی کا  احساس دلانے کے لیے۔ ہمارے ہاں شادیوں سے لےکر جنازے تک اس دکھاوے اور بناوٹ کا کلچر عام ہوتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے کفالت مشکل سے مشکل بنتی جا رہی ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ ضروریات تو درویشوں کی بھی پوری ہوجاتی ہیں پر خواہشیں بادشاہوں کی بھی اکثر ناآسودہ رہ جاتی ہیں، ضرورت اور خواہش کے بیچ فرق جاننا بہت ضروری ہے اور اس سوشل پریشر سے نکلنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ فقط مقابلے بازی اور دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کسی نمائشی دوڑ کا حصہ بنا جائے۔