یونانی پانیوں سے 15 مہاجرین کی لاشیں برآمد
24 اپریل 2017یونانی کوسٹ گارڈز کے ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈوب کر ہلاک ہونے والے پندرہ افراد میں سے آٹھ کی لاشیں یونانی کوسٹ گارڈ نے جبکہ سات مزید لاشیں ترک کوسٹ گارڈز نے برآمد کیں۔
حکام کے مطابق یونانی بحریہ کے ایک جہاز نے الارم بجا کر نظر آنے والی لاشوں کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ یونانی کوسٹ گارڈ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں نو مرد، دو بچے اور چار خواتین شامل ہیں۔
تاہم کوسٹ گارڈز ایک حاملہ خاتون کو بچانے میں کامیاب ہو گئے، جسے لیسبوس منتقل کر دیا گیا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ مزید کتنے مہاجرین لاپتہ ہیں۔ یہ امدادی کارروائی اور سرچ آپریشن یونانی کوسٹ گارڈ اور بحریہ، ایک نجی جہاز اور فرنٹیکس نے مل کر انجام دیا۔
اب تک ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین ترکی کے قریبی ساحلوں سے یونان داخل ہوئے ہیں۔ اِن سب کا مقصد ایک بہتر زندگی کی تلاش میں یونان کے راستے یورپ کے وسطی اور شمالی ممالک تک پہنچنا ہے۔
تاہم ترکی اور یورپی یونین کے مابین گزشتہ برس مہاجرین کے حوالے سے ہونے والے ایک معاہدے کے بعد سے یونان کے راستے یورپ پہنچنے والے تارکینِ وطن کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے ہونے والی ڈیل کے تحت ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو جبراﹰ ترکی واپس پہنچا دیا جاتا ہے۔
سمندر کے سفر کے لیے انسانی اسمگلر غیر محفوظ ڈنگی کشتیوں اور کبھی کبھار بادبانی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ پیر چوبیس اپریل کو بحیرہٴ ایجیئن میں ڈوبنے والی کشتی کس نوعیت کی تھی۔
دوسری جانب یونانی جزیرے لیسبوس کے ’موریا مہاجر کیمپ‘ میں چَودہ شامی مہاجرین نے جمعے کے روز سے بھوک ہرتال کر رکھی ہے۔ مہاجرین کے اس گروپ نے یہ بھوک ہڑتال اپنی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد احتجاج کے طور پر کی ہے۔
موریا کیمپ ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک سابقہ فوجی بیس کیمپ میں قائم ہے اور اس میں تین ہزار مہاجرین مقیم ہیں۔ یونان کے مختلف علاقوں میں ساٹھ ہزار مہاجرین قیام پذیر ہیں اور اِن کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔